2 38

مشرقیات

جنگ احد میں حضرت ام عمارہ اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور اپنے دو بیٹوں حضرت عمار اور حضرت عبداللہ کے ہمراہ شریک ہوئیں۔ جب کفار نے نبی اکرمۖ پرہلہ بول دیا تو یہ آپۖ کے قریب آکر حملہ روکنے والے صحابہ کرام میں شامل ہوگئیں۔ ابن قمیہ ملعون نے نبی اکرمۖ پر تلوار کا وار کرنا چاہاتو حضرت ام عمارہ نے اپنے کندھے پر روکا جس سے بہت گہرا زخم آیا۔
ان کے بیٹے حضرت عبداللہ کو ایک ایسا زخم لگا کہ خون بند نہیں ہوتا تھا۔ حضرت ام عمارہ نے اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کو باندھا اور کہا: بیٹا اٹھو اور اپنے نبیۖ کی حفاظت کرو۔اتنے میں وہ کافر جس نے ان کو زخم لگایا تھا پھر قریب آیا۔ نبی اکرمۖ نے فرمایا: اے ام عمارہ! تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا کافر یہی ہے۔ ام عمارہ نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ گر پڑا اور وہ چل نہ سکا اور سر کے بل گھسٹتے ہوئے بھاگا۔ نبی علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو مسکرا کر فرمایا: ام عمارہ تو خدا کا شکر ادا کر جس نے تجھے جہاد کرنے کی ہمت بخشی۔ حضرت ام عمارہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے دل کی حسرت ظاہر کی کہ حضور! آپۖ دعا فرمائیں کہ ہم لوگوں کو جنت میں بھی آپۖ کی خدمت کا موقع مل جائے۔ آپۖ نے اس وقت ان کے لئے ان کے شوہر کے لئے اور دونوں بیٹوں کے لئے دعا کی: خدایا! ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ (مدارج النبوة’ بحوالہ اہل دل کے تڑپا دینے والا حالات)
حضرت حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ حضرت اسود بن کلثوم جب چلتے تھے تو قدموں کی طرف نظر رکھتے یا انگلیوں کے کناروں کی طرف۔ جب وہ میدان کار زار میں آئے تو کہا: خدایا! میرا یہ نفس آسائش میں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اگر یہ سچا ہے تو اسے یہ دے دے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اس ملاقات پر اسے سوار کردے۔ اگرچہ یہ اسے نا پسند ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اپنے راستے میں قتل کردے اور میرا گوشت درندوں اور پرندوں کو کھلا دے۔ وہ اس لشکر کے ایک گروہ میں چلے گئے’ حتیٰ کہ ایک باغ میں داخل ہوگئے جس کی دیوار میں ایک جگہ سوراخ تھا۔ دشمن آکر سوراخ پر کھڑا ہوگیا۔ دوسرے ساتھی نکل گئے’ یہ اندر ہی رہے حتیٰ کہ دشمن بڑی تعداد میں سوراخ پر جمع ہوگئے۔ یہ اپنے گھوڑے سے اترے اور اس کے چہرے پر مارا۔
حتیٰ کہ انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ وہ نکلے اور باغ میں ایک خاص جگہ کا قصد کیا۔ وہاں وضو کیا’ پھر نماز پڑھنے لگ گئے۔ جب انہوں نے نماز پوری کرلی تو ان سے لڑنا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ وہ شہید ہوگئے۔ پھر اس لشکر کا امیر باغ کے پاس سے گزرا’ لشکر میں ان کا بھائی بھی تھا۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ آپ باغ میں داخل نہیں ہوتے؟ دیکھو اپنے بھائی کی جو ہڈیاں نظر آئیں انہیں چھپائو۔ انہوں نے کہا کہ میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس کے بارے میں میرے بھائی نے دعا کی اور وہ قبول ہوگئی۔ یہ جواب سن کر انہوں نے مجبور نہیں کیا۔
(کتاب الجہاد’ لابن مبارک)

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند