4 19

پی سی ایل5۔۔ دس لاکھ ڈالر کی ٹرافی

کرکٹ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ہمارا قومی کھیل نہیں لیکن اس سے عوامی لگاؤ اتنا زیادہ ہے کہ لوگ اس کیلئے وقت نکال ہی لیتے ہیں اور اگر کرکٹ کے سارے ٹورنامنٹ یا سارے میچ نہ بھی دیکھ سکیں مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا میچ نہ صرف پورے کا پورا دیکھا جاتا ہے بلکہ کرکٹ کے شائقین کے علاوہ بھی لوگ بڑے اہتمام کیساتھ دیکھتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم اگر کوئی ٹورنامنٹ بھی نہ جیتے اور ورلڈ کپ پاکستان کے نام نہ کرسکے اس پر ہمیں کبھی ملال نہیں رہا کیونکہ کھیل تو پھر کھیل ہے لیکن جب بات پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ کی ہو تو پھر کھیل میں ہم ہارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ کہانی کافی پرانی ہے جہاں تک میری یاداشت کا تعلق ہے تو مجھے شارجہ کا وہ جاوید میاں داد کا چھکا اور پاکستان کا شارجہ کپ جیتنا اب بھی اچھی طرح یاد ہے، اس دن تو گویا پاکستان میں جشن منایا گیا، ہر طرف مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اس کے بعد سے جب بھی، کوئی بھی ٹورنامنٹ ہوا قوم نے انہمام سے نہیں دیکھا مگر پاکستان اور بھارت کا کوئی بھی میچ جب جب ہوا پوری قوم نے نہ صرف میچ دیکھا بلکہ اچھے کھیل پر داد اور برے کھیل پر کھلاڑیوں کو برا بھلا بھی کہا۔
لائن آف کنٹرول کے اِس طرف جو یہ حال ہے تو لائن کے اُس طرف بھارت کے شائقین کا بھی حال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ وہ بھی اپنے کرکٹ کھلاڑیوں سے جتنی محبت کرتے ہیں اتنی ہی نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں، جب وہ پاکستان کی ٹیم سے ہار جاتے ہیں۔ میرے قارئین اور کرکٹ کے شائقین کو اچھی طرح یاد ہوگا جب بھارت میں کرکٹ کھلاڑیوں کی قبریں بنائی گئیں اور ان کے گھروں پر پتھراؤ ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے عوام کیساتھ ساتھ حکمران بھی ان جذبات کو جانتے ہیں اس لئے تو ہمارے صدر جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لیکر سرحدوں پر کشیدگی کو کم کرنے کا کام لیا۔ پاکستان کے صدر بغیر دعوت نامے کے کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بھارت چلے گئے اور یوں سرحد پر کشیدگی میں خاصی حد تک کمی آئی۔ یوں اسے کرکٹ ڈپلومیسی کا نام دیا گیا اور آنے والے کئی حکمرانوں نے بھی اسے اپنے لئے استعمال کیا۔
کرکٹ اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے کہ کب سیاستدان کرکٹ کو اپنے لئے استعمال کرتے ہیں اور کب سیاست کرکٹ میں آجاتی ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہماری قوم گزشتہ کئی برسوں سے دیکھ چکی ہے لیکن آج ہم بات کرنے جارہے ہیں پاکستان میں ہونے والے تازہ ترین ایونٹ پاکستان سپر لیگ جسے عرف عام میں پی ایس ایل کہا جاتاہے۔ پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا میلہ کی پانچویں کڑی گزشتہ روز کراچی میں شروع ہو چکی ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں شامل پانچوں ٹیمیں تو پاکستان کی ہیں لیکن کھلاڑی پوری دنیا سے لئے گئے ہیں۔ ہم پاکستان آنے والے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور کچھ یہی جذبات ہماری پوری قوم کے بھی ہیں اور پورے ٹورنامنٹ میں شائقین کرکٹ انہیں بھرپور داد دیتے رہیں گے۔ پی ایس ایل نے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بہتر بنایا ہے جوکہ عالمی سطح پر بہترین لیگز میں سے ایک کا روپ دھار چکی ہے اور اگرچہ کچھ لوگ آئی پی ایل کے بعد بگ بیش اور پھر پی ایس ایل کو ریٹ کرتے ہیں لیکن پورا ایونٹ پاکستان میں ہونے کے باعث پاکستانی لیگ کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ کرکٹ سے عوام کے شدید لگاؤ کو دیکھتے ہوئے سابق کپتان اور کراچی کنگز کے صدر وسیم اکرم نے پی ایس ایل شائقین سے فرمائش کی ہے کہ وہ اس کرکٹ کے پاکستان میں سب سے بڑے میلے کو کامیاب کروانے کیلئے خوب ہلہ گلہ کریں۔ کرکٹ کو ترسے ہوئے افراد بڑی تعداد میں میچز دیکھنے گراؤنڈز میں آئیں کیونکہ پی ایس ایل کا پورا ایونٹ پاکستان میں ہورہا ہے اور شائقین کرکٹ کی بھرپور دلچسپی ہی سے کامیاب ہوگا۔ یہ ان لوگوں کیلئے خاص موقع ہے جو اسٹار پلیئرز کو اپنے شہروں میں کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی وقت ہے کہ وہ کھیل سے بھرپور محبت اظہار کریں۔
دس لاکھ ڈالر کی چمچماتی ٹرافی کو جیتنے کیلئے پاکستان کی پانچوں ٹیمیں اپنے بھرپور کھیل کا مظاہرہ کریں گی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، اسلام آباد یونائیٹڈ، کراچی کنگز، لاہور قلندر، پشاور زلمی اور ملتان سلطانز کے پلیئرز ٹائٹل کے حصول کیلئے اور شائقین کرکٹ سے داد لینے کیلئے بے چین ہیں۔ لیگ کرکٹ کا حالیہ ایڈیشن اس لحاظ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ لیگ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایونٹ کے تمام میچز پاکستان میں ہوم گراؤنڈز پر ملکی شائقین کے سامنے کھیلے جائیں گے۔ اس سے ساری دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ پاکستان میں دوبارہ سے امن آگیا ہے اور اب کسی قسم کے سیکورٹی خدشات اور رسک نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی