Ahmad Ali Ghayas

سرکاری ہسپتال میں ادویات کی چوری

ساری دنیا میں مستند ڈاکٹر سے علاج کروانا مہنگا ہے، غریب ملکوں کا یہ المیہ ہے کہ یہاں ڈاکٹروں کی کمی ہے اور امیر ملکوں کے ڈاکٹر پورے سائنسی طریقے سے مریض کا معائنہ کرتے ہیں جو بہت مہنگا ہے۔ صرف نزلہ زکام کیلئے بھی دوا لینے جائیں تو کم ازکم 100ڈالر کا خرچ آجاتا ہے یعنی15000سے اوپر پاکستانی روپے۔ جی ہاں ترقی یافتہ ملکوں میں میڈیکل سٹور سے جاکر آپ پیراسٹامول یا ڈسپرین نہیں خرید سکتے جبکہ ہمارے یہاں دس سے بیس روپے میں ہمارے میڈیکل سٹور والا آپ کو دوا بھی دے دیتا ہے اور چند مفید طبعی مشورے بھی عنایت کر دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم جہاں بیٹھے ہوتے ہیں چاہے وہ دوستوں کی محفل ہو، دفتر یا دکان ہو یا کسی کے گھر مہمان گئے ہوں تو آپ کو نہ صرف طبعی مشورہ مفت دیا جاتا ہے اور ساتھ میں بیسیوں ریفرنس بھی دیتے ہیں کہ یہ بیماری میرے بھائی کو چچا کو یا پھر کسی دور کے رشتہ دار کو ہوئی تھی تو ڈاکٹر نے اسے یہی دوا لکھ کے دی تھی اور اس سے اسے آرام آگیا تھا۔ یہ میں صرف نزلہ زکام کی بات نہیں کررہا بلکہ کئی سنگین بیماریاں جن میں دل کے امراض، آنکھوں کے امراض، پیٹ کی بیماریاں، اپینڈیکس، ہیپی ٹائیٹس، کئی قسم کے انفیکشن وغیرہ کیلئے بھی بلاجھجھک مشورے دیئے جاتے ہیں اور زور بھی دیا جاتا ہے کہ بھئی ایک دفعہ استعمال تو کرکے دیکھو۔ اس طرح نیم حکیموں کے نسخوں سے ہم بیماری کو خطرناک حد تک لے جاتے ہیں اور پھر پرائیویٹ کلینک کے بھاری بھر کم فیس نہ بھر سکنے کی صورت میں سرکاری ہسپتال میں جاکر بھرتی ہوجاتے ہیں۔ضلع اور تحصیل میں سرکاری ہسپتالوں پر سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ادویات اور مشینوں پر لیکن ادویات تو قسمت والوں کو ملتی ہیں اور اکثر مریض پرچی ہاتھ میں لئے سارا سارا دن ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر ہی کاٹتے رہتے ہیں۔ کچھ یہی حال ٹیسٹوںکا بھی ہے اور آئے روز میڈیکل کی مشینوں کی خرابی کا رونا رویا جاتا ہے اور ہسپتال میں مشین کے ہوتے ہوئے بھی باہر سے ٹیسٹ کروانے کا کہا جاتا ہے اس بارے میں بھی کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے باہر اتنے زیادہ لیبارٹریوں والے ہسپتال کے عملہ سے ملے ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر ہسپتال کی مشینوں کو یا تو خراب کیا جاتا ہے یا پھر یونہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے مریضوں کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ لیبارٹری والوں نے اندر اپنے ٹاؤٹ چھوڑے ہوئے ہیں جو انہیں گھیرگھار کر اپنے لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم تو اس بات سے بھی حیران ہیں کہ ہر بڑے سرکاری ہسپتال کے باہر کئی درجن میڈیکل سٹوروں اور لیبارٹریوں کا کیا مطلب ہے۔ جب علاج ہسپتال سے کروانا ہے اور ہسپتال کے اندر ہر قسم کی سہولت مفت میسر ہے تو کوئی باہر کے غیرمعیاری اور غیرمستند لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کیوں کروائے گا مگر یہاں کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،یہ کسی ایک ضلع یا ایک تحصیل نہیں بلکہ اکثریت کا یہ حال ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی یہ حالت دیکھ کر متوسط طبقہ تو پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتا ہے اور پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق یہ غریب لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کو چلے جاتے ہیں، وہاں پر پیسے تو لیتے ہیں لیکن علاج ہو نہ ہو صفائی ستھرائی کا وہ رعب ڈالا جاتا ہے کہ مریض نفسیاتی طور پر ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن اگر نفسیاتی طور پر ہی ٹھیک کرنا ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں بھی صفائی کے نام پر ایک فوج ظفر موج بھرتی ہوئی ہوتی ہے جس کا کام صبح دوپہر شام ہسپتال کو صاف ستھرا رکھنا ہے لیکن جہاں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل عملہ کرپٹ ہے تو صفائی کا عملہ بھی اس گنگا میں ہاتھ رنگنے سے گریز نہیں کرتا اور آدھے سے زیادہ صفائی کا عملہ پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس یا ڈاکٹروں کے گھروں پر کام کر رہا ہوتا ہے تو ایسے میں ہسپتال کیا خاک صاف ہوگا اور پھر مریضوں کیساتھ آنیوالے لواحقین بھی اتنا گند پھیلاتے ہیں کہ جیسے وہ ہسپتال میں نہیں بلکہ کہیں پکنک منانے آئے ہوں ، جبکہ لے دے کے جو آدھا صفائی کا عملہ بچتا ہے تو وہ کام کر کر کے تھک جاتا ہے لیکن اتنے بڑے ہسپتالوں کو صاف رکھنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ یوں بڑے بجٹ کے بڑے سرکاری ہسپتال کم اورگھوڑوں بلکہ گدھوں کے اصطبل زیادہ لگتے ہیں۔ یہاں علاج کیلئے آنے والے ٹھیک تو نہیں ہوتے البتہ کئی اور بیماریاں ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن ٹھہریئے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر سرکاری ہسپتالوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں، اس سلسلہ میں صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی چوری کو روکنے کیلئے انتظامات کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں انوینٹری مینجمنٹ سسٹم متعارف کروایا جا رہا ہے یوں خیبر پختونخوا پہلا صوبہ ہوگا جہاں یہ سسٹم ضلع اور تحصیل کی سطح پر متعارف کروایا جائیگا۔ یہ نظام سرکاری ہسپتالوں سے ادویات کی چوری کو روکنے کیلئے تدارک کرتا رہے گا۔ اگلے مرحلے میں عوام کو بھی اس سسٹم کے ذریعے اپنے موبائل پر ان کے قریبی ہسپتال میں ادویات کی دستیابی کا ریکارڈ میسر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام