5 20

پھر کسی فی میل نے بھیجی ہے ای میل مجھے

پرانے وقتوں میں کسی کے دل میں خوف خدا پیدا کرنے کی غرض سے بس اتنا کہہ دیا جاتا تھا کہ ”اللہ دیکھ رہا ہے” اور جس کسی کے دل میں یہ بات سما جاتی تھی وہ بہت سی برائیوں سے بچ جاتا۔ لیکن ایک زمانہ وہ بھی آیا جب اس سچائی پر عمل کرنے والوں کی سوچ پر شیطانی حرکتوں کا غلبہ ہونے لگا اور یوں لوگوں کے دلوں میں ”اللہ کے دیکھتے رہنے کا خوف’ عنقا ہونے لگا۔ چوری چکاری ظلم زیادتی لوٹ کھسوٹ مہنگائی ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوری قتل وغارت بدمعاشی رشوت خوری سینہ زوری ناانصافی جیسی بہت ساری قباحتوں میں اضافہ کی شرح بڑھنے لگی ہے۔ معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی کرنے کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے بنتے ہیں۔ قانون اور انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے جج اور عدالتیں وجود میں آتی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کو تازہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود جرائم کی شرح میں کمی نہیں ہو پاتی بلکہ ہر صبح شائع ہونے والے اخبارات کی سرخیاں جرم وسزا کی نہ ختم ہونے والی داستانیں بن کر اخبار بینوں کے رونگٹے کھڑے کرنے لگتی ہیں۔ تاہم یہ دیکھ کر قدرے سکون محسوس ہوتا ہے کہ اگر لوگوں کے دلوں میں خوف خدا باقی نہیں رہا تو ان لوگوں کا وجود ہی غنیمت ہے جو لوگوں کے دلوں میں خوف خدا کا احساس بیدار کرتے رہتے ہیں۔ علماء ومشائخ، صوفیائے کرام، بزرگان دین وہ ہستیاں ہیں جو لوگوں کے دلوں میں خوف خدا پیدا کرنے کے علاوہ انہیں سیدھے راستے پر چلانے کیلئے جو جو جتن کرتے رہے یا ان میں قوالیوں کی وجد آفرین محفلیں سجا کر، تیرے عشق نچایا تھیاں تھیاں کا جوش اور جذبہ جگا کر، پژمردہ دلوں میں عشق وسرود کے سوتے جگا کر جہاں تصوف کے سدا بہار رنگ سجاتے رہے وہاں اسی بہانے ظلمت کدہ عالم میں تعلیمات دین اسلام کی ضیاء پاشیوں کو اپنے اپنے طریقے سے پھیلاتے رہے اور یوں اللہ کے ان برگزیدہ لوگوں کو پیران طریقت اور سجادہ نشینوں کا رتبہ بھی حاصل ہوتا رہا، لیکن پیران طریقت اپنا سلسلہ طریقت جاری کرنے سے پہلے عبادتوں اور ریاضتوں کے جن مرحلوں کو طے کرتے رہے انہیں چلہ کاٹنے یا رب سوہنے کو منانے کا مرحلہ کہتے ہیں جس کیلئے انہیں کسی کنج تنہائی میں دنیا جہاں کی آلائشوں، غموں دکھوں اور ہنگاموں سے آزاد ہوکر نہایت انہماک کیساتھ رجوع کرنے اور مالک عز وجل کے حضور عاجزی اور انکساری سے پیش ہونے کی ضرورت پڑتی تھی، صوفیائے کرام اپنے گرد حصار باندھ کر اس قدر یکا وتنہا ہوجاتے کہ شیطان مردود اور طاغوتی قوتوں کو ان کا حصار توڑنے کی جرأت تک نہ ہوپاتی اور یوں پیر فقیر اپنی چلہ کشی اور ریاضت کے مرحلوں کو نہایت یکسوئی کیساتھ نبھا کر جب دنیا والوں کے درمیاں پہنچتے تو سرخروئی اور سرفرازی ان کی قدم بوسی کیلئے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتی، وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو اپنے یا اپنے آباء کے وضع کردہ طور طریقوں کی روشنی میں راہ مستقیم پر چلنے کی ترغیب دینے لگتے اور اسلام کا نور سینہ بسینہ سفر کرتا نسل درنسل منتقل ہونے لگتا، لیکن آہ کہ اب وہ دن نہیں رہے کہ
یہی مغرب کی خوبی ہے، یہی فیضان ہے اس کا
برائی بانٹ دیتا ہے، بھلائی چھین لیتا ہے
فضا میں گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں، الیکٹرونک میڈیا اور انٹرنیٹ کے اس انقلاب آفریں دور نے ہم تو ہم ہمارے پیروں فقیروں اور سلسلہ ہائے طریقت کے وارثوں سے بھی عافیت کے وہ گوشے چھین لئے جہاں بیٹھ کر وہ چلہ کشی کرتے تھے، ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے صرف کرہ ارض کو گلوبل ویلیج نہیں بنایا بلکہ انٹرنیٹ سے مربوط ہونے والی منی سی سم نے آپ کے کسی گوشہ عافیت کو گوشہ تنہائی رہنے نہیں دیا، دنیا جہاں کی طاغوتی قوتیں آپ کے خلوت کدہ یا بیڈروم میں آپ کے سیلولر سیٹ کی وساطت سے درآتی ہیں، مجھے وہ زمانہ نہیں بھولتا جب دادی اماں ٹی وی سیٹ پر آنے والے نامحرم مردوں کو دیکھ کر اپنا چہرہ چھپا لیتی تھیں اور اب ایک زمانہ یہ آگیا ہے کمرہ استراحت میں کمبل اوڑھے بچیاں اور بچے اور ان کے امی ابو ایک دوسرے کی نظروں سے نظریں بچا کر جو خرافات دیکھ اور سن رہے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، انٹرنیٹ کی بہار ہی نہیں اس کی یلغار کے اس موسم میں کون ہے وہ پیر فقیر یا اللہ کا نیک بندہ جو کسی گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرسکے، اب تو سوشل میڈیا میں دندناتے زن ومرد بلاخوف وخطر آپ کے بیڈ روم میں درآتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے ہمیں عالم تنہائی میں بھی صرف اللہ ہی نہیں دیکھ رہا وہ لشکر خدا وندی بھی ہماری حرکات وسکنات سے ناواقف نہیں جس نے اقبال کے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ان لوگوں کو حمام کے سارے لوگ نظر آرہے ہیں کہ انہوں نے ٹیکنالوجی کے جنات کو قابو کرنے کی شکتی حاصل کرکے ہم پر ثابت کردیا کہ ہمیں خدا ہی نہیں دیکھ رہا اس کے وہ بندے بھی دیکھ رہے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے ستاروں پر کمند ڈالنے کے بعد ہم سے نیابت اور خلافت کی صلاحیتیں چھین کر کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں اور ہم ہیں کہ کہتے رہ گئے کہ
پھر کسی فی میل نے بھیجی ہے ای میل مجھے
میل کو دیکھ کر کھلنے لگے ہیں چہرے کے پھول
ہو اگر اس میل میں موجود نام اور پتہ
میرے کمپیوٹر کو ہے ایسا وائرس بھی قبول

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل