p613 153

سیاسی اجتماع نہیں مہنگائی میں کمی کارگر نسخہ ہوگا

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے کوئی خوف نہیں، حکومت ہر صورت اپنی مدت پوری کرے گی، احتجاج اپوزیشن کا آئینی حق ہے ،تحریک انصاف کے پاس آج بھی سٹریٹ پاور ہے ،مجھ سے بہتر لوگوں کو اکٹھا کرنے کا فن کوئی نہیں جانتا۔وزیر اعظم نے کہا کہ مہنگائی کا احساس ہے،مہنگائی مافیا جتنا بھی طاقتور ہوا ان کیخلاف کارروائی ہوگی۔وزیراعظم عمران خان کتنے لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں کتنا بڑا جلسہ ہوسکتا ہے اب یہ وزیراعظم کیلئے اہم نہیں، حزب اختلاف لوگوں کو اکٹھا کر کے حکومت پر دبائو بڑھاتی ہے حکومت لوگ اکٹھا کر کے حزب اختلاف پر دبائو نہیں ڈال سکتی۔ حکومت کا کام ملک کا نظم ونسق چلانا، قانون سازی اور ملکی امور وسلامتی کا دفاع ہے جس کیلئے مجمع اکٹھا کرنے کی قطعی ضرورت نہیں لہٰذا وزیراعظم اس کو سڑکوں پر آئی حزب اختلاف پر چھوڑ دے حکومت کیلئے اس سے بہتر حکمت عملی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کہ حکومت اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے ملک کے عوام کو اس درجہ مطمئن کرے کہ وہ احتجاج کی کال پر کان تک نہ دھریں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکاری ملازمین مطالبات منوانے کیلئے سڑکوں پر ہیں، اس سے بھی بڑھ کر مشکل صورتحال روز افزوں مہنگائی کی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی معمول کی شرح سے تین گنا زیادہ ہے، مہنگائی ایک ایسا اجتماعی مسئلہ ہے جس سے حکومت کے حامی اور مخالفین یکساں طور پر متاثر ہورہے ہیں اورنالاں ہیں۔ وزیراعظم نے مہنگائی کیخلاف مہم کی ذاتی نگرانی کرنے اور مہنگائی میں کمی کا جو ذمہ اُٹھایا ہے، وزیراعظم اگر عوامی اجتماع منعقد کر کے حزب اختلاف کا مقابلہ کرنے کی بجائے مہنگائی میں کمی لاسکیں تو یہ حزب اختلاف کو مؤثر بلکہ مسکت جواب ہوگا اور عوام اس کوشش کو یکساں طور پر سراہیں گے۔ مہنگائی میں کمی پلڑا حکومت کے حق میں جھکا دے گی اور مہنگائی میں اضافہ سے حزب اختلاف کا پلہ بھاری ہوگا۔ حکومت مہنگائی میں کمی لانے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرے تو حزب اختلاف کا مقابلہ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
طبی ویزہ سہل بنانے کا مستحسن قدم
پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لوگوں کیلئے علاج معالجہ کیلئے آمد کے خواہشمندوں کیلئے ویزے کا حصول آسان بنانے کا عمل انسانی بنیادوں پر ہی نہیں معاشی طور پر بھی ضروری اور اہم ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کیساتھ تجارتی اور سفری روابط ہونے کے باوجود بہت سے شعبوںبالخصوص ہیلتھ کے شعبے میں لوگوں کو دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت میں قانونی مسائل کا سامنا ہے ۔ دوسرے شعبوں کے علاوہ طبی بنیادوں پر ویزوں کے اجراء کیلئے پالیسی میں نرمی لانے سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دوسرے شہروں کے میڈیکل اداروںمیں افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ آئیں گے جس سے ٹرانسپورٹ، سیاحت، ہوٹلنگ اور روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے اورسب سے زیادہ فائدہ پشاور شہر کو ہوگا جو افغانستان سے قریب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی پڑائو کیلئے اہم مرکز رہاہے۔ محکمہ صحت سے ریفرل طریقہ کار کے تعین کیساتھ افغانستان کے ہسپتالوں سے آفیشل مراسم اور صحت کے شعبوں کو مربوط بنانے سے لوگوں کو علاج کی آسانی اور جلد سے جلد علاج شروع کرنے کا عمل آسان ہوگا۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری اور تجاری حجم میں اضافے کا آسان طریقہ ویزہ پالیسی میں نرمی اور کم سے کم مدت میں ویزوں کا اجراء ہے جو دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتوں کے بہتر مفاد میں ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اور مختلف کاروباری وطبی شعبوں کیساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں تعاون وہم آہنگی کی فضا پیدا کر نے کی سنجیدہ کوششیں ہوں گی اور ان کے مثبت نتائج جلد سامنے آسکیں گے۔
سوال درست جواب کون دے گا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس کہ اگر عوام غلط لوگوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں لائے ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟ ایک ایسے بنیادی نکتے کی نشاندہی ہے جس پر اگر توجہ دی جائے اور عوام شعور سے کام لیکر اہل اور دیانتدار نمائندوں کو منتخب کریں، تمام گروہی وبرادری مفادات وتعصبات سے بالاتر ہو کراہل افراد کا چنائو کر کے اچھی حکمرانی اور بہتر حکومت کی بنیاد رکھ دیں تو یقینی تبدیلی ممکن ہوگی۔ دوسری جانب سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے ملک میں اور جاری سیاسی نظام اور الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن ہوگا یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مل جائے تو نیا پاکستان بنے گا۔
خواجہ سرائوں کو یکساں مواقع دینے کی ضرورت
خواجہ سرائوں کی والدین سے لیکر معاشرہ اور حکومت سبھی سے حق تلفی کی شکایت بے جا نہیں، بد قسمتی سے اس صنف کو سرے سے انسان ہی تسلیم کرنے پر معاشرہ تیار نہیں۔ حکومت ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کو حقوق دینے کی بڑی دعویدار ہے لیکن عملی طور پر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ خواجہ سرائوں کی جانب سے نظامت، کھیل، خیبرپختونخوا کی جانب سے منعقد سپورٹس گالا میں یکساں مواقع فراہم کرنے کے بجائے مخصوص خواجہ سرائوں کو نوازنے کا الزام لگاتے ہوئے پریس کانفرنس سنجیدہ امر ہے جس کا حکومت کو نوٹس لینا چاہئے ساتھ ہی اخراجات کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات کی تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ درست صورتحال سامنے آسکے۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار