پشاور(مشرق نیوز)خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ وزیراعلی خیبر پختونخوامحمود خان باتیں کم اور کام زیادہ کرتے ہیں،وزیراطلاعات نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ کابینہ میں پہلے دن سے مسئلہ چلاآرہاتھا۔ وزیر اعلیٰ ہائوس میں پشاور پریس کلب کے نو منتخب عہدیداران کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ صوبے سے باہر محمود خان کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ کوئی کام نہیں کرتے لیکن فاٹا انضمام کے بعد وہاں پر کامیابی سے پولیس کو ایکسٹنڈ کرنا، لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنا، عدالتوں کا قیام عمل میں لانا اور کامیاب انتخابات کرانا اور قبائلی اضلاع کے لئے تقریباً 84 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ وزیر اعلیٰ محمود خان نے ممکن بنایا ۔ شوکت یوسفزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پشاور پریس کلب پورے صوبے کے پریس کلبوں کے لئے رول ماڈل ہے۔ پشاور پریس کلب کو ایک اکیڈمی کے طور پر ہونا چاہیے جہاں پر نئے آنے والے صحافیوں کی تربیت ہو۔ پشاور پریس کلب صحافی برادری کے آپس میں اور دوسرے ضلعوں اور تحصیل پریس کلب کے اختلافات اور مشکلات دور کرنے میں کردار ادا کرے۔ صوبائی وزیر نے نو منتخب عہدیداران کو مبارکباد بھی پیش کی۔حلف برداری تقریب میں وزیر اعلیٰ محمود خان، وزیر جنگلات سید اشتیاق ارمڑ، ترجمان صوبائی حکومت اجمل وزیر، سیکرٹری اطلاعات سید امتیاز حسین شاہ، ڈی جی انفارمیشن امداداللہ اور پشاور پریس کلب کے صحافی شریک ہوئے۔ اس سے قبل ایک انٹرویومیں وزیر اطلاعات خیبرپختونخوا شوکت یوسفزئی نے تین وزراء کی برطرفی کے معاملے پر اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وزیراعظم معاملے پر پریشان تھے۔ ایک انٹرویومیں شوکت یوسفزئی نے کہا کہ صوبائی کابینہ میں پہلے دن سے مسئلہ چلاآرہا تھا، وزیراعظم عمران خان پریشان تھے کہ کیوں ایک ٹیم ورک سامنے نہیں آرہا ۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مزید کسی وزیر کے خلاف کارروائی زیر غور نہیں ہے،جن ایم پی ایز پر گروپنگ میں شامل ہونے کا الزام تھا انہیں شوکاز دینے کا فیصلہ ہوگیا ہے ۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گروپنگ میں 3 وزراء کے ساتھ 6 لوگ ہیں جن میں 2 خواتین بھی شامل ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ پارٹی کے اندر ڈسپلن لانے کے لیے اس طرح کا فیصلہ نا گزیر تھا، وزیراعظم آن بورڈ تھے، صوبے کے تمام معاملات سے واقف تھے، اگر اراکین اسمبلی مطمئن نہ کرسکے تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ شوکت یوسفزئی نے کہا کہ تینوں وزراء کو برطرف کر کے پارٹی ڈسپلن کو برقرار رکھا گیا ہے، ان کی پارٹی رکنیت ابھی تک بحال ہے، انہیں اسمبلی میں بیٹھتے وقت بھی پارٹی ڈسپلن کا خیال رکھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہٹائے جانے کی چہ مگوئیوں سے پرفارمنس متاثر ہوتی ہے اور لوگ کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں، اتنا بڑا فیصلہ کنفیوژن دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments