1 277

حکمت یار تعلقات کی پرانی راہوں پر

افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار اسلام آباد کی ان پرانی راہوں سے گزر رہے تھے جہاں آج بھی انہیں آواز دینے والے بے شمار پاکستانی موجود ہیں۔ وہ آج بھی ایک نسل کیلئے مانوس ہیں اور اپنے دوسرے ہم عصر جہادی کمانڈروں کی طرح تیزی سے اجنبی اور غیرمانوس نہیں ہوئے گوکہ انہیں حالات کے منظر سے غائب ہوئے اتنا وقت گزر چکا ہے جب ایک نسل سن شعور کو پہنچتی ہے اس کے باوجود سوویت یونین کیخلاف لڑنے والے جہادی کمانڈروں میں حکمت یار اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ افغانستان کے بعد انہیں اب بھی پاکستان میںوہی پذیرائی حاصل ہے جو ماضی کا خاصہ تھی۔ اس کی ایک وجہ تو پاکستان میں ایک منظم دینی جماعت کیساتھ ان کا نظریاتی تعلق ہے اس تعلق نے اسی کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی جیسی جامعات کے دروازے بھی ان پر کھولے رکھے جہاں قدم رکھنا پاکستان کے کئی نامور اور متحرک سیاست دانوں کا ایک خواب تھا جو کبھی پورا نہ ہوسکا۔حکمت یار بلاشبہ ان جہادی کمانڈروں میں سر فہرست یا شاید واحد شخصیت ہوں گے جنہوں نے اپنے پاکستان میں قیام کے دنوں میں تیرا یار میرا یار حکمت یار حکمت یار کے نعروں اور پاکستان کی نوجوان نسل میں اپنی اس مقبولیت کو جم کر انجوائے بھی کیا۔ حکمت یار نے مہاجرت کے ان ایام میں ان شیریں یادوں کیساتھ ساتھ تلخیوں کا ایک ذخیرہ بھی بچا رکھا ہوگا۔ گل بدین حکمت یار افغانستان کی سب سے بڑی اور منظم جہادی گروپ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں اور ان کا جنگی کردار کابل یونیورسٹی سے ستر کی دہائی میں شروع ہوتا ہے جب وہ کابل یونیورسٹی میں دائیں بازو کے اساتذہ کے زیر اثر آئے اور پھر اس راستے میں آگے بڑھتے چلے گئے ۔ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر جو چند افغان اپنے ملک پر سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ جیسے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان آئے حکمت یار ان میں سر فہرست تھے۔ حکمت یار نے اصل شہرت پاکستان دوست افغان کی حیثیت سے حاصل کی مگر ان کی پاکستان دوستی کا تصور برادرانہ برابری کے گرد گھومتا رہا۔ انہوںنے ایک جلسے میں اعلان کیا تھا کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہوگی۔ حکمت یار کے اس جملے پر ناک بھوں چڑھانے والے موجود تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حکمت یار افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ شاید بعض افغانوں کی ناراضی کی طرح بہت سے پاکستانیوں کیلئے اس جملے میں خوشی کا یہ پہلو رہا ہو مگر عجیب اور دل خراش اتفاق دیکھئے کہ جب گل بدین حکمت یار اسلام آبا د میں تھے تو افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک سٹیڈیم افغان مرد وزن سے بھرا ہوا تھا۔ سٹیڈیم کی تصویریں بتاتی ہیں کہ تاحدنگاہ ہزاروں افراد کا بے تاب ہجوم ہے۔ اگر یہ کسی سیاسی جماعت کا جلسہ ہوتا تو اسے انتخابی کامیابی کی ضمانت کہا جا سکتا تھا اوراگر کسی جنازہ گاہ کا منظر تو یہ اس شخص کی مقبولیت اور برگزیدہ شخصیت ہونے کا اعلان ہوتا مگر یہ وہ لوگ تھے جو ہاتھوں میں نیلا پاسپورٹ تھامے پاکستان کے ویزے کے متمنی اور متلاشی تھے۔ جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کو پاکستان آنے کے خواہش مندوں کی اتنی درخواستیںموصول ہوئیں کہ ان کی جانچ پڑتال عام عمارت میں ہونا ناممکن رہا اور قونصل خانے نے ضابطے کی کارروائی کیلئے ایک وسیع وعریض سٹیڈیم کا انتخاب کیا۔ اس کے باوجود ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ بھگدڑ مچنے سے بارہ خواتین پیروں تلے آکر کچلی گئیں اور یوں ان کی پاکستان آنے کی حسرت ناتمام رہی۔ مالی استعداد نہ رکھنے والے افغان جنگی ماحول سے اس قدر تنگ آئیں تو یورپ کی سیر وسیاحت کی بجائے پاکستان چلے آتے ہیں۔ بیمار ہوجائیں تو پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ عزیر اقارب کی یاد ستائے تو پاکستان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ آسان کاروبار کا راستہ اختیا رکریں تو پاکستان کی منڈیوں کی طرف دوڑتے ہیں۔ ہمارے ایک مرحوم سینئر اخبار نویس دوست ستر کی دہائی میں کابل سینما میں بالی ووڈ کی فلم مغل اعظم دیکھنے کیلئے اختیار کردہ سفرِ کابل کی کہانی سناتے تو لمحہ بھر کو ایک خواب اور اور افسانہ لگتا کیونکہ ہم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی سوویت فوجیں افغانستان کی دہلیز پار کر رہی تھیں اسلئے ایک پاکستانی کا اس طرح آزادانہ اور معمول کے اندازمیں کابل جانا قطعی عجیب سی بات معلوم ہوتی تھی۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ آج افغان ترس ترس کر پاکستان کا ویزہ حاصل کرتے ہیں۔ باڑھ بلند ہو رہی ہے، حفاظتی چوکیاں تعمیر ہورہی ہیں اور گاہے بگاہے پاکستان کی فورسز پر افغان علاقوں سے یوں گولیاں برسائی جاتی ہیں کہ لمحہ بھر کو یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ڈیورنڈ لائن ہے یا کنٹرول لائن۔ اکہتر سالہ حکمت یار ایک بار پھر حالات کے منظر پر بروئے کار آئیں یا نہ آئیں ان کی سوچ وقت کے ماتھے پر آج بھی کندہ ہے اور یہی پاکستان اور افغانستان کی ضرورت بھی ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ اور کینیڈا کھلی سرحدوں کیساتھ اپنا تشخص اورشناخت برقر ار رکھ سکتے ہیں تو پاکستان اور افغانستان میں تو ان سے زیادہ مشترکات ہیں مگر شاید یہ ٹرین مس ہو چکی ہے اور اگلی ٹرین کب آئے کون جانتا ہے؟ پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں