nadir shah 1

مہنگائی ۔۔۔یا۔۔۔نسل کشی ۔۔؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ کیونکر انسانوں کے کسی دوسرے گروہ کو اپنے سے حقیر تراور کمتر سمجھنے لگا۔اس کا جواب محض ایک لفظ ہے جس میں ہزاروں سال کی تاریخ کا ایک اہم راز پوشیدہ ہے۔ پروپیگنڈہ باور کرانے کی کوشش۔ ۔
مثلا یونانی اپنے علاوہ دوسرے اقوام کو وحشی یا باربیرین کہتے تھے ۔یہودی خود کو خدا کی پسندیدہ مخلوق سمجھ کر دوسری قوموں کو نخوت سے جینٹائل کہتے تھے اسی طرح عرب اپنے سوادوسری قوم کو عجمی یا گونگا کہتے تھے۔ایک انگریز مفکر ناٹ نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ سفید اقوام کا تعلق کاکیشئین نسل سے ہے اور وہ ہر زمانے میں حکمران رہی ہیں،کیونکہ یہ لوگ بہادر ،ہمت والے،مہم جواور تہذیب کو آگے بڑھانے والے ہیںان کے مقابلے میں سیاہ فام فوجی اور مطلق العنان حکومتوں میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔یورپی اقوام نے جب ایشیائ،افریقہ اور آسٹریلیا میں قدم جمایا تو مقامی لوگوں کواقتدار سے بے دخل کرکے خود اقتدار پر قابض ہوگئے ۔ استحصال اور نسل پرستی کی ایک نئی تاریخ رقم کرکے متعلقہ ملکوں کے وسائل اور رعایا کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے خوب استعمال کیا ۔خود یورپ میں نازی ازم نے سفید اقوام میں آریہ نسلی برتری کے نظریئے کو فروغ دیا اور اس کی بنیاد پر جرمنی نے یورپ کے ملکوں کو فتح کرکے وہاں اپنا اقتدار قائم کرنا شروع کردیا۔
”انیسویں صدی میںیورپی ادیبوں، سا ئنسد ا نو ںاور مفکروں کو بڑی دور کی سوجھی اور دنیا بھر سے کھوپڑیاں جمع کرنی شروع کردیںاور ان کے سائز کو دیکھ کر کسی نسل کی ثقافتی اہمیت کو ثابت کیا جانے لگا۔ایک سفید فام کی کھوپڑی کی تجزیئے کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ اس کا وزن سائنس اور اعلیٰ خیالات کے لئے موزوں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھوپڑی کے سائز اور وزن پر زور کیوں دیا گیا ؟ان کے اوپر بالوں کی تعداد کا اندازہ کیوں نہیں لگایا گیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس طرح کیا جاتا تو سیاہ فام سب سے اعلیٰ اور برتر قرار پاتے جبکہ اس کے برعکس سفید فاموں کو نچلے درجے پر شاید جگہ ملتی۔ان مذموم مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے ڈارون کے نظریہ ”طاقتور کی بقا”کو اپنے نسل پرستانہ مفادات کے لئے خوب استعمال کیا اور ثابت کیا کہ ہر ذی روح اپنے وجود کی بقا کے لئے جدوجہد کرتی ہے اور اس عمل میں بے رحمانہ مقابلہ ہوتا ہے لہٰذا جو نسل طاقتور ہوتی ہے وہ زندہ رہنے میں کامیاب قرار پاتی ہے جبکہ کمزور نسلیں اس عمل میں ختم ہوجاتی ہیں۔اس کے ذریعے سفید فاموں نے ثابت کیا کہ وہ ہی دنیا کے فطری حکمران ہیں اور ان کی جسمانی خصوصیات اور ہڈیوں کی بناوٹ حکمرانی کے لئے موزوں ہے۔ سفید فام اقوام نے تہذیب کے نام پر ریڈ انڈین اور آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کا قتل عام کیا ۔انہوں نے سوچا بحیثیت کمزور نسل کے انہیں نیست و نابود ہونا ہی تھا لہٰذا اس عمل کو تیز کیوں تیز نہ کیا جائے؟پاکستان میں بھی شروع سے حکمران اشرافیہ کی اکثریت کا غریب عوام کے ساتھ وہی رویہ رہا جو سفید فاموں کا غیر سفید فاموں سے رہاتھا۔کڑی دھوپ میں جلنے والے اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ انہیں اور ان کے اہل و عیال کو روٹی ،کپڑا اور مکان میسر ہو ،انہیں ان کی محنت کا معاوضہ ملتا رہے۔ ان کے بچوں کو معاشرے میں آگے بڑھنے کے لئے مساوی حقوق حاصل ہوں ،مساوی تعلیمی اور طبی سہولتیں دستیاب ہوںاور جب وہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں توانہیں مایوسی کا منہ دیکھنا نہ پڑے۔ان کے ارد گرد لوٹ مار اور دہشت گردی کا راج نہ ہو۔ان کی جان ومال محفوظ ہو ،ظالموں اور لٹیروںکی رسی دراز نہ ہولیکن گزشتہ 72\73سالوںسے انہیں اس قدر تڑپایا اور ترسایا گیا ہے کہ وہ نیم جان ہو چکے ہیں۔ڈارون کے نظریہ ”طاقتور کی بقا” کی رو سے ہر وہ ذی روح زندہ بچے گی جس میں بقا کی قوت موجود ہوگی ۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وطن عزیز میں صرف حکمران اشرافیہ ہی بقاء کی حامل ہے۔جبکہ محکوم غریبوں اور بے کسوں کے نصیب میں محرومیوں کے اندھیرے ،امیدوں کی کرچیاں، اداسیوں کا جمگھٹا ،پل پل جلنے کڑھنے کی بپتا ہے۔اسی طرح پاکستان ان کے لئے کسی قربان گاہ سے کم نہیں ۔آئے دن بھوک اور بے روز گاری کے ہاتھوں خود کشیاں کرنا ان کے لئے روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔اقتدار کی باگ ڈور ہمیشہ اشرافیہ کی ہاتھوں میں رہی یہی وجہ ہے کہ جو بھی حکومت برسر اقتدار آئی ‘ اس نے غربت کے بجائے غریب طبقے کے خاتمے کا پروگرام تیزکردیاکیونکہ ہر حکومت بہتری اسی میں سمجھتی رہی کہ بحیثیت کمزور طبقے کے انہیں ویسے بھی نیست و نابود ہونا ہے تو کیوں نہ اس عمل کو تیز کیا جائے۔غریب عوام آزادی سے لے کر آج تک اپنی بقا کی جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیںلیکن اس مرتبہ شایدوہ اپنی اس جدوجہد کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ اب ان کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔اس بار وہ شکست و ریخت کا شکار ہوتے جا رہے ہیںکیونکہ دووقت کی روٹی کے دلدل میں دھنسا ہوا یہ طبقہ کب تک مہنگائی کے اس طوفان کی مزاحمت کرتا رہے گا ؟۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا