p613 167

پیٹرولیم مصنوعات میں معمولی کمی

وفاقی حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے’ ایک روپے 57پیسے کمی کے بعدپیٹرول کی نئی قیمت 102روپے جب کہ 84پیسے فی لیٹر کمی کے بعد ڈیزل کی نئی قیمت 103روپے 22پیسے مقرر کی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی ‘ ان کی موجودہ قیمتیں برقرار رہیں گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کورونا کی دوسروں لہر کے باعث لاک ڈائون کے خدشات کے پیش نظر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں 5فیصد تک گر گئی ہیں’ عالمی مارکیٹ میں برینٹ کروڈآئل کی قیمت 5.42فیصد کمی کے ساتھ 37ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے۔ اس لیے امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی جائے گی لیکن حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی کمی کی گئی ہے حالانکہ اگر حکومت چاہتی تو فی لیٹر پانچ روپے تک کمی کر کے عوام کو ریلیف دے سکتی تھی،دریں حالات ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی صورت میںہونے والی آمد ن کا رخ عوامی مسائل کے حل کی طرف موڑا جائے تاکہ اس مد میںہونے والی آمدن سے عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
مہنگائی کے خلاف ٹھوس اقدامات کی ضرورت
پشاور میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پشاور انتظامیہ کو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے خصوصی ہدایات جاری کی گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پشاور سمیت صوبے میں اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کیا جاسکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور حکومتی وزراء مہنگائی کو مصنوعی اور مافیا کی ملی بھگت قرار دے چکے ہیں’ حالانکہ آج مہنگائی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ریاست کے تمام وسائل کو بروئے کا رلاتے ہوئے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اُٹھائے جائیں۔ مہنگائی کی وجہ اگر واقعی مافیا ہے تو پھر ان کیساتھ رعایت کیوں برتی جا رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت روزمرہ استعمال کی اشیاء غریب کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں ، غریب طبقہ کی واحد امید حکومت ہے ، جو غریبوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے یا پھر مہنگائی کی شرح میں کمی کیلئے ہنگامی اقدامات اُٹھائے ۔ مہنگائی کی شرح میں اضافہ کے باعث غریب طبقہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ ان کی ماہانہ آمدن موجودہ حالات کیلئے کافی نہیں رہی ہے۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ حکومتی مشینری حرکت میں آئے اور شہریوں کو بیوپاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ٹھوس اقدامات اُٹھائے تاکہ عوام کودو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ میسر آ سکے۔
کینڈین وزیر اعظم کا قابل تقلید طرزِ عمل
آزادی اظہار رائے ایک ایسی اصطلاح ہے ، جس کی مغربی ممالک میں حدود متعین نہیں ہیں، نہ ہی اہل مغرب اس کی حدود کا تعین کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ترقی کیلئے آزادی اظہارِ رائے کو لازم قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں آئے روز دیگر مذاہب بالخصوص اسلام اور مقدس ہستیوں کی توہین کی جاتی ہے اور جب ان سے کوئی سوال کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے تو اپنا اظہار رائے کا حق استعمال کیا ہے ، تمہیں بھی آزادی حاصل ہے تم بھی آزادی اظہار رائے کے تحت جو کہنا چاہتے ہو کہو۔ مغربی ممالک کے شہری اور ان کے سربراہان اس بات سے عاری ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا بے دریغ استعمال کر کے دوسروں کی آزادی اور جذبات کومجروح کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی ، اہل مغرب کے اپنے معاشروں میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے مغربی ممالک کے شہریوں اور سربراہان کو متعدد بار یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آزادی اظہار کی حدود کا تعین کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے ۔ اب یہی بات کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہی ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کا دفاع کریں گے مگر یہ حدود کے بغیر نہیںہونی چاہیے۔ اسی طرح کے جذبات کااظہار نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن بھی کر چکی ہیں۔ فرانس کے صدر میکرون کا طرز عمل اس کے برخلاف رہا ہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے اس کا ردِ عمل آیا ہے۔ ہم اس حوالے سے صرف اتنا کہیں گے کہ آگے بڑھنے اور پرامن بقائے باہمی کیلئے ضروری ہے کہ مقدس ہستیوںکے احترام کوملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اور یہ کام آزادی اظہارِ کیلئے حدود کا تعین کیے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، اہل مغرب کیلئے کینیڈین وزیر اعظم اور نیوزی لینڈکی وزیر اعظم کے طرز عمل میں تقلیدی پہلو ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟