2 45

ایک اور ”مہاتیر محمد” مل سکے گا؟

جنوبی ایشیا کی تاریخ میں اگر5اگست2019 نہ آتا تو ہمارے لئے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی اقتدار کے ایوانوں میں آمد ورفت محض ایک اسلامی ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے نتیجے میں ہونے والی اتھل پتھل قرار پاتی۔ یہ خبر شاید ہمارے عوام کی توجہ بھی حاصل نہ کر پاتی۔ مسلمان ملکوں میں محلاتی سازشیں اور اقتدار کی رسہ کشی اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے خونیں اور غیرخونیں انقلابات معمول ہیں۔ انڈونیشیا سے مراکش تک اس پٹی کو سیاسی استحکام نصیب ہے اور نہ جمہوریت اپنی پوری روح کیساتھ حاصل ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آئے روز ان ملکوں میں سیاسی زلزلے رونما ہوتے ہیں۔ پانچ اگست کو نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ کرکے پاکستان کو حالات کے بے آب وگیاہ صحرا میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان ذہنی طور پر ایسے کسی فیصلے کیلئے تیار نہیں تھا اور یوں یہ واقعہ سماعتوں پر بجلی بن کر برس گیا۔ فیصلہ ہونے کے بعد پاکستان نے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا تو دور دور تک کوئی مونس اور غمگسار دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جن پتوں پر تھوڑا بہت تکیہ تھا وہ پہلے ہی ہوائیں دے رہے تھے، اس فیصلے کے بعد وہ تو زیادہ قوت سے جھول جھول کر ہوا دینے لگے۔ مشکل کی اس گھڑی میں ستاون ملکوں کی بھیڑ میں چند ہی ہاتھ مسیحائی کو آگے بڑھے۔ ملائیشیا کے بانوے سالہ راہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد ان میں شامل تھے جنہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کی مذمت اور پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کا پُرخطر اور مشکل راستہ اپنایا اور پھر سود وزیاں کی پروا کئے بغیر اس راہ پر مسلسل آگے بڑھتے رہے۔ چین، ملائیشیا، ترکی اور کسی حد تک ایران اس صف میں کھڑے دکھائی دئیے۔ یہی وجہ ہے مہاتیر محمد جن کی پہچان ایک ایسے سیاسی راہنما کی تھی جس نے اپنے ملک پر طویل عرصے تک جمہوری انداز سے حکومت کی اور اس ملک کو معاشی بدحالی کی پستیوں سے نکال کر اقتصادی ایشین ٹائیگر بنا دیا مگر پانچ اگست کے بعد ان کی شناخت پاکستان کے ایک مشکل لمحوں کے ساتھی، مصلحت اور خوف سے آزاد ایک مسلمان راہنما کی ہوگئی اور اس لئے ان کے اقتدار کی رخصتی کو معدودے چند دوستوں میں سے ایک کمی سمجھا جا رہا ہے۔ مہاتیر محمد نے وعدے کے عین مطابق اپنا استعفیٰ بادشاہ کو بھیج دیا ہے اور یوں اس کی رسمی منظوری ہی باقی ہے۔ عملی طور پر مہاتیر محمد نے سٹیج اپنے اتحادی انور ابراہیم کیلئے خالی کر دیا ہے۔ انور ابراہیم وزیراعظم بنتے ہیں یا اس سیاسی اتحاد سے کسی اور کے نام قرعۂ فال نکلتا ہے؟ ملائیشیا مزید کسی مخلوط حکومت میں جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے نئے انتخابات کی طرف جاتا ہے قطع نظر ان سوالوں کے ہمارے لئے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملائیشیا کے نئے منظرنامے میں ہمیں ایک اور ”مہاتیر محمد” دستیاب ہوگا؟ کیا ان کا جانشین بھی کشمیر اور دوسرے مسائل پر اسی جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کرے گا؟۔ کسی نئے انداز اور نئے انتظام سے مہاتیر محمد کی واپسی کا امکان بھی موجود ہے مگر سیاست اور انتخاب ایک جوا ہوتا ہے جس میں ہر ہار اور جیت بہم قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ مہاتیر محمد1981سے2003 تک مسلسل ملائیشیا کے وزیراعظم رہے۔ مہاتیر محمد2018 میں نجیب رزاق کو ہرا کراقتدار میں آئے تھے، وزیراعظم بنتے ہی ان پر یہ دباؤ موجود تھا کہ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کیلئے مدت کا تعین کریں اور اس کے بعد انور ابراہیم کیلئے جگہ خالی کریں۔ انور ابراہیم اندر خانے مہاتیر محمد پر دباؤ بڑھاتے رہے اور اب مہاتیر محمد نے اچانک اس دباؤ سے نکل کر استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس میں ان کی رضا ورغبت کا حصہ بہت کم ہے اور یہی وہ پہلو ہے کہ جو ملائیشیا میں سیاسی عدم استحکام بڑھنے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ مہاتیر کے اس انداز سے استعفیٰ کو ”کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا” سٹائل کہا جا رہا ہے اور اس میں ان کے پوشیدہ سیاسی عزائم کو تلاش کیا جارہا ہے۔ مہاتیر محمد کے اقتدار کے اس پونے دوسال کے عرصے میں انہیں پانچ سال کیلئے وزیراعظم رکھنے اور اقتدار انور ابراہیم کو منتقل کرنے کی دو متوازی مہمات سرد جنگ کی صورت میں چلتی رہیں۔ شاید اسی دباؤ سے تنگ آکر مہاتیر محمد نے اقتدار انورابراہیم کو باضابطہ طور پر منتقل کرنے کی بجائے ایک خلاء اور ابہام پیدا کر دیا گویا کہ چورانوے سالہ مہاتیر محمد ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے مگر کوچۂ سیاست میں پوری قوت سے موجود ہیں۔ دوسری طرف انورابراہیم اور مہاتیر محمد کا تعلق نشیب وفراز سے بھرپور ہے۔ انورابراہیم سیاست میں مہاتیر محمد کے دست راست اور ان کے جانشین سمجھے جاتے تھے مگر بعد میں سیاسی سفر کے دوران مہاتیر محمد کے شیشۂ دل میں ان کیلئے بال آگیا اور دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ مہاتیر محمد نے1998 میں انورابراہیم کو نائب وزیراعظم کے عہدے سے معزول کرکے قید کر دیا۔ ملائیشیا کے عوام نے ان الزامات کو سیاسی مخالفت سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ دوستی کے طویل تعلق کے بعد تلخی کا ایک بھرپور وقت گزارنے کے بعد مہاتیر محمد نے2018 میں انور ابراہیم سے اتحاد کرکے ملائیشیا کے عوام کو حیران کر دیا۔ اپنے اس قدم کے دفاع میں ان کا کہنا تھا کہ نجیب رزاق کے اقتدار کے خاتمے کیلئے ایسا کرنا ضروری تھا۔ غیرمتوقع اتحاد کے اس فیصلے نے دونوں کو انتخابی کامیابی تو عطا کی مگر یہ مجبوری کا سودا ہی ثابت ہوا۔ مہاتیر محمد اور انورابراہیم کے درمیان سردجنگ جاری رہی جس کا نتیجہ مہاتیر محمد کے اچانک مستعفی ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔ ملائیشیا کی متوقع سیاسی صورت گری سے قطع نظر مہاتیر محمد کی رخصتی عالمی دوستوں کی مختصر سی فہرست میں مزید کمی کا باعث بن گئی۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات