5 22

دو نیناں مت کھائیو

انہیں جب اور جہاں کہیں حرام یا حلال کھانے کا مواد نظر آتا ہے، کائیں کائیں کرکے گرد ونواح کے سارے کوؤں کو جمع کرلیتے ہیں اور پھر مل کر اُڑانے لگتے ہیں اچھی یا بری دعوت۔ ان کی اس ادا کو دیکھ کر پرانے اور سیانے لوگوں نے کہا ہے کہ ”بھرا بھرا دا تے کاں کاں دا” یعنی ایک کوا دوسرے کوے کا اس طرح سنگ ساتھ نبھاتا ہے جیسے بھائی بھائی کا نبھاتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی دو یا دو سے زیادہ کوؤں کو کھانے پینے یا دعوت اُڑانے کے معاملے میں آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ ایک بار یوں ہوا کہ نصیب دشمناں ایک اُڑتے کوے کا پاؤں ہماری پتنگ کی ڈور میں پھنس گیا۔ یہ حرکت ہم نے جان بوجھ کر تھوڑی کی تھی، ہم تو بس پیچ لڑانے کے شوق میں آسمان کی جانب دیکھ کر پتنگ بازی کر رہے تھے کہ ایسے میں اُڑتا ہوا آیا کہیں سے ایک کوا اور پھنس گیا ہماری پتنگ کی ڈور میں، اور لگا کائیں کائیں کائیں کرنے۔ جانے کیا کہا اس نے کہ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کوؤں کے کائیں کائیں کرتے غول کے غول پیدا ہوگئے۔ کائیں کائیں کائیں کا اس قدر شور اُٹھا کہ ہمیں جان کے لالے پڑ گئے۔ پتنگ پیچ لڑانے سے پہلے ہی بو کاٹا ہو گئی اور ہم بے چارے اپنی کٹی پتنگ کو حسرت بھری نظروں سے ڈولتا اور اپنی آنکھوں کے سامنے دور پار کہیں جاکر گرتا دیکھتے رہ گئے۔ یوں لگتا ہے جیسے کالے کوؤں کو ڈیزائن کرتے وقت خالق کائنات نے ان کے چہرے پر چونچ نامی ‘نوزل پلاس’ فٹ کر دیا ہو۔ اگر ہم کوے کی چونچ کو نوزل پلاس کہہ سکتے ہیں تو پھر ہر پرندے کی چونچ کو پلاس یا نوزل پلاس کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کوے میاں کو جو نوزل پلاس ودیعت ہوا ہے اس کا چمٹا اس قدر مضبوط اور پکڑ رکھنے والا ہے کہ جس کسی شے کو منہ ڈالتا ہے اسے چیر پھاڑ کر ہڑپ کر جاتا ہے۔ بچپن میں ہمیں پہیلیاں بوجھنے اور بجھوانے کی عادت تھی، ان پہیلوں یا بجھارتوں میں ایک پہیلی یہ بھی تھی کہ ”اس پرندے کا نام بتاؤ، جس کے سر پر پاؤں ہوں” ہماری اس پہیلی کو سن کر اچھے اچھے دل اور دماغ والے سوچ میں ڈوب جاتے تھے کہ بھلا وہ پرندہ کونسا ہے جس کے سر پر پاؤں ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے مدمقابل کو اس پہیلی یا چیستان کا جواب تلاش کرنے میں ناکام پاتے، تو اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے اسے بتاتے کہ ”تمہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ ہر پرندے کا سر بھی ہوتا ہے اس کے پر بھی ہوتے ہیں اور پاؤں بھی”۔ دیکھو اس کوے کی جانب اس کا سر بھی ہے، پر بھی ہیں اور پاؤں بھی”۔ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن وہ دوڑتا بہت تیز ہے اسلئے کہ سچ اس کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے لیکن کوا پاؤں ہونے کے باوجود دوڑنے کی بجائے پھدکنا پسند کرتا ہے۔ بڑا سیانا ہے اس نے کسی سے سن رکھا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ ایک دن میں نے کسی گھر کی منڈیر پر ایک پھدکتے کوے کو دیکھا، اس منڈیر پر چند چڑیاں بھی بیٹھی تھیں۔ کوے میاں کا دل چوں چوں کرتی چڑیوں کو دیکھ کر للچایا اس نے پھدک کر ایک چڑیا کو اپنے پاؤں کے دونوں پنجوں سے دبوچا، وہ بے چاری ہائے وائے مرگئی کے انداز میں چیں چیں کرتی رہی اور یہ ظالم اپنی چونچ کے پلاس میں اس منی سی چڑیا کو پکڑ کرکچا ہی چبا گیا۔ میں نے اس شامت ماری چڑیا پر ہونے والی زیادتی کو دیکھا تو مجھے وہ قسمت مارے بچے یاد آنے لگے جن پر ہونے والی زیادتیوں کی خبریں آئے روز اخبار میں چھپتی رہتی ہیں اور زمین جنبش نہ جنبش گل محمد کے مصداق قانون دان اور قانون ساز مگرمچھ کے آنسو بہانے کے سوا کچھ بھی تو نہیں کرسکتے۔ برباد کرکے رکھ دیتے ہیں کسی کا گھر گھونسلا یہ ظالم ناہنجار کالے کوے۔ میں نے ایک کوے کو چڑیا اور چڑے کی موجودگی میں ان کے گھونسلے پر حملہ کرکے ان کے منے کو اپنی چونچ کے پلاس سے چیڑپھاڑ کر چباتے دیکھا ہے۔ کیا کرسکتا تھا چڑا اور سینہ جلی چڑیا اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچے پر ہونے والی زیادتی کو دیکھ کر سوائے چوں چوں یا چیں چیں کرنے کے۔ جس وقت راقم السطور نے چڑیا چڑے کے نومولود بچوں کو ہڑپ کرجانے کا منظر دیکھا تو اسے چڑیا چڑے کی چوں چوں اور چیں چیں کی آواز میں سے چونکہ چنانچہ کی صدائیں آنے لگیں۔ جیسے چڑا اور چڑی دونوں ملکر ”چونکہ اور چنانچہ” کی گردان کرتے ہوئے کہہ رہی ہوں کہ چونکہ انسانوں کی بستی میں ایسا روز ہوتا ہے۔ بچے اغوا کئے جاتے ہیں بچے ورغلائے جاتے ہیں۔ ہوس کا نشانہ بنائے جاتے ہیں اور پھر ان کو قتل بھی کرکے گندگی کے ڈھیر پر بھی پھینک دیا جاتا ہے، چنانچہ تن اور من کے کالے کوے بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ یہ گر سیکھا ہے انہوں نے ان لوگوں سے جو سانپ بھی ہیں بچھو بھی گدھ بھی ہیں بھیڑئیے بھی۔ ڈاکو بھی ہیں لٹیرے بھی
مہذب لوگ بھی سمجھے نہیں قانون جنگل کا
شکاری شیر بھی کوؤں کا حصہ چھوڑ دیتے ہیں
وہ جو کسی نے کہا تھا کہ انڈے دے بی فاختہ کوا موج اُڑائے، کوؤں کو تو بس بدنام کر دیا گیا ہے۔ ”کتنے خوبصورت ہیں تمہارے پر، جانے آواز کتنی بھلی ہوگی” کوا بی لومڑی کی یہ بات سن کر کائیں کائیں کرنے لگا اور اس کے منہ سے پنیر کا ٹکڑا گر گیا، جسے لومڑی نے اُٹھایا اور بھاگ کر ثابت کر گئی کہ کوے سے زیادہ چالاک بھی ہے کوئی اس دنیا میں، مگر اس کے باوجود حضرت امیر خسرو نے کوے ہی کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ
کاگا سب تن کھائیو، مورا چن چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو رے، موہے پیا ملن کی آس

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں