3 236

صحت مند معاشرے کی بنیادی اقدار

زندگی میں ہر انسان کا واسطہ کسی نہ کسی دفتر سے ضرور پڑتا ہے وہ آدمی بڑا خوش نصیب ہوگا جو دفتروں کی غلام گردشوں سے محفوظ ہو۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو آج کے اس جدید دور میں بھی بینک میں اپنا اکاؤنٹ نہیں کھلواتے اپنی کرنسی اپنے پاس محفوظ سمجھتے ہیں، انہیں بینک میں کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے ہوئے بابو سے خوف محسوس ہوتا ہے (حالانکہ بینک اور سرکاری دفاتر کے ماحول میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے) لیکن پھر بھی بندے کو کبھی نہ کبھی کسی دفتر تو جانا ہی پڑتا ہے۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ یہ ان لوگوں کی بات نہیں ہورہی جو کسی دفتر میں ملازم ہوتے ہیں یا دفتر ان کا ملازم ہوتا ہے اور وہ ہر روز کسی شہنشاہ کی طرح اپنے دفتر کی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں وہ اپنے دفتر آئے ہوئے لوگوں کو اس انداز سے دیکھتے ہیں جیسے ان بیچاروں کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ یہ نازک مزاج دفتر دیر سے پہنچتے ہیں اور کرسی پر براجمان ہوتے ہی ان کا نائب قاصد ان کے سامنے الہ دین کے چراغ والے جن کی طرح قہوہ لیکر حاضر ہو جاتا ہے، قہوہ کی ہلکی ہلکی چسکیوں کے دوران تازہ ترین لطیفوں کا دور بھی چلتا رہتا ہے یا گھر کی کسی پریشانی کا تذکرہ بھی ساتھیوں سے ہوتا رہتا ہے۔ اگر سائل کسی ضروری کام کے سلسلے میں ان سے ایک گھنٹہ پہلے آکر بیٹھا ہوا ہے تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ اس کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے، وہ ایک خاص قسم کی ادائے بے نیازی سے فائلوں کی ورق گردانی میں مصروف رہتے ہیں، ان کی نظرالتفات بھی ان فائلوں پر ہوتی ہے جن کا کوئی مضبوط حوالہ ہوتا ہے اور جو فائلیں یتیم ویسیر ہوتی ہیں جن پر کسی کا دست کرم نہیں ہوتا یہ ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے، انہیں اٹھا کر میز کے ایک مخصوص کونے میں رکھ دیتے ہیں۔ معاف کیجئے گا دفتروں میں ایسے اہلکار بھی ہوتے ہیں جو اپنا کام بڑی چابک دستی اور دیانتداری سے کرتے ہیں، ان کے بارے میں یہ بات عام طور پر مشہور ہوتی ہے کہ یہ اپنی میز پر فائل نہیں چھوڑتے، انہیں بالائی آمدنی سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی بس انہیں اپنا کام نپٹانے کی خوشی ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کی تکلیف اور اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس رکھتے ہیں ایسے اہلکار ہی قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں یہی ملک وقوم کا اثاثہ ہوتے ہیں لیکن ایسے صاحبان آج کل کالے گلاب کی طرح نایاب ہیں۔ آج کل ایک کثیر تعداد ایسے اہلکاروں پر مشتمل ہے جنہیں آپ مردم آزار کہہ سکتے ہیں، انہیں دوسروں کی عزت نفس اور ذہنی اذیت کا کوئی خیال نہیں ہوتا، یہ ماتھے پر بل ڈالے کسی سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ ایک مہربان کیساتھ ہم ایسے ہی اہلکاروں کے حوالے سے بات چیت کررہے تھے تو وہ کہنے لگے کہ مردم آزار اور رشوت خور کا انجام بڑا عبرتناک ہوتا ہے ان کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ذہنی سکون نہیں ہوتا اور یہ ایسی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرتے ہیںکہ لوگوں کیلئے باعث عبرت بن جاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں اپنے دفتر کے ایک بابو صاحب یاد آگئے ہیں وہ دفتر کام کیلئے آنے والوں کو انسان بھی نہیں سمجھتے تھے، ان کی تیوری ہر وقت چڑھی رہتی، کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کئی بار کہا کہ یہ تکبر ہے اللہ کو ناپسند ہے اور تکبر کرنے والا دنیا میں ذلیل وخوار تو ہوتا ہی ہے اسے آخرت میں بھی انسانوں کو حقیر سمجھنے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جو لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اسے رب کریم کی مہربانی سمجھو کہ تم آج ایسی سیٹ پر ہو کہ سائل آپ کے پاس آتے ہیں اور اس کام کی تمہیں اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہے۔ اپنا کام دیانتداری سے کرنا بھی عبادت ہے اور پھر مخلوق خدا کی خدمت کرنا تو بہت بڑی سعادت ہے لیکن وہ ہماری باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتا۔ اسے ریٹائرمنٹ سے دس بارہ برس پہلے کینسر ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کیلئے سروس جاری رکھنا ممکن نہیں تھا اس لئے اسے وقت سے بہت پہلے سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔ کاش یہ باتیں ہماری سمجھ میں آتیں، ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ میں پانچ دعائیں ہر نماز کے بعد مانگتا ہوں سب سے پہلے میں اللہ پاک سے مضبوط ایمان کا سوال کرتا ہوں، اس کے بعد رب کریم سے اچھی صحت مانگتا ہوں، پھر معافی مانگنے اور معاف کرنے کی توفیق کا سوال کرتا ہوں پھر اللہ پاک سے کہتا ہوں کہ مجھے مخلوق خدا کیلئے وسیلہ بنا دے اور میری پانچویں دعا یہ ہوتی ہے کہ اے رب کریم مجھے بہت زیادہ شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اگر غور کیجئے تو ان پانچ دعاؤں میں کتنی اچھی زندگی کا تصور پوشیدہ ہے اگر کسی کو مضبوط ایمان مل جائے اور ساتھ اچھی صحت بھی ہو تو اسے اور کیا چاہئے۔ ایمان اور صحت سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے، اللہ سے معافی مانگنا تو بہت بڑی سعادت ہے اور لوگوں کو اگر ہم معاف کرنا شروع کردیں تو کتنا صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ ہم تو لوگوں کی معمولی سے معمولی غلطی بھی معاف کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ چھوٹے سے مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، خوش نصیب ہیں وہ اہلکار جو لوگوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں، عوام کی خدمت کر سکتے ہیں اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی