4 228

ٹی وی پرثقافت کی آلودگی

آج کے پاکستانی ڈرامے کا المیہ ہے کہ وہ نہ جانے کس معاشرہ کی عکاسی کررہاہے۔ سسر کا بہو کے ساتھ عشق اور سالی کا بہنوئی سے معاشقہ تقریباً ہر ڈرامہ میں چل رہا ہے۔ ہر قسم کی برائیاں معاشرہ میں میڈیا کے زریعے سرائیت کرتی ہیں اور آگے کچھ عرصہ بعد وہ معاشرہ کا عکس بن جاتی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں میڈیا اس پالیسی پر عمل کرکے ہمارے خاندانی نظام کی بنیادیں کمزور کررہا ہے۔ پاکستانی عوام بارہا متعلقہ اتھارٹی کے نوٹس میں لاچکی ہے کہ وہ اس ثقافتی آلودگی کو بند کروائے۔ آلودگی چاہے ماحول میںہو، سیاست میں یا ثقافت میں تمام کی تمام قابل مذمت ہیں اور اب ماحول انڈسڑی کی فاضل مادہ ، گاڑیوں کے دھویں سے خراب ہو رہا ہو یا شور شرابے سے ہر طرح سے غلط ہے، انڈسٹری کی ترقی کا تو سب کو احساس ہے مگر اس بات کا واویلابھی سب کر رہے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آلودگی نہ صرف انسانوں بلکہ سب جانداروں کے لئے خطرناک ہے روز بروز کا بڑھتاہوا دھواں اور گرمی اوزون کی لہرکو خراب کررہی ہے جس سے ماحول اور موسم دن بہ دن خراب ہو رہے ہیں۔ ماحول اور موسم کی آلودگی کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت بھی آلودہ ہو گئی ہے ہمارے ٹی وی ، فلم کے پرڈیوسر اور فنکار ہمہ وقت یورپ اور بالخصوص پڑوسی ملک کی اندھی تقلید میں اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال کر ایک بے ہنگم سی تفریح اور ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ہر طرح کی بے حیائی کو کلچر کا نام دینے والے اپنا مذہب، اپنی شاندار روایات، اقدار، اپنے رسم رواج اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی بلاوجہ نقالی کر رہے ہیں، یہاں یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ اس طرح کی بے حیائی پڑوسی ملک کی روایت رہی ہے ۔ ہمارے ہاں ان لوگوں کی ایک عرصہ سے مخالفت جاری ہے اور یہ لوگ جنریشن گیپ کا نام دے کر اس تنقید اور مخالفت کو بے جاگردانتے ہیں لیکن جنریشن گیپ کا سہارا لیکر یہ مدر پدر آزاد مٹھی بھر لوگ میڈیا کا بے دریغ استعمال کرکے کبھی” کیٹ واک ” کے نام پر بے ہودگی پھیلارہے ہوتے ہیں تو کبھی بے ہودا اور واہیات گانے گاکر اور ان پر ڈانس کر کے پیارے وطن کی پیاری موسیقی کو آلودہ کر رہے ہوتے ہیں ان لوگوں میں اتنی اخلاقی جرأت تو ہے نہیں کہ اپنی کوئی دھن یا اپنا کوئی انداز اپنائیں، چوری کی ہوئی دھنیں اور اُدھار مانگے ہوئے گانے گارہے ہوتے ہیں۔ کبھی تو جی ٹی روڈ پر بریکیں لگاتے ہیں تو کبھی بلو کے گھر جانے کے لئے لائن بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ زیادہ بات نہیں چیف صاحب۔نچ پنجابن نچ پر تو لوگوں کو غصہ تھا ہی مگر اب تو انتہا ہی ہوگئی کہ ”پروین تو بڑی نمکین ” گایا گیا لیکن ان کا علم بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح محدود ہے کہ اگر ٹریفک والے انکو جی ٹی روڈ بلاک کرنے پر کوئی سزا نہیں دے رہے تو چیف صاحب کو زیادہ بات کرنے سے تو نہیں روک سکتے ۔ یہ بات ہمارے پرنٹ میڈیا میں پچھلے کئی عرصہ سے موضوع بحث تھی کہ خدارا کوئی تو اس بے ہودگی کو لگام دے ۔ کم از کم ایک تو ایسا قانون بنائیں کہ اس ثقافت کی آلودگی کو روکا جاسکے کیونکہ ہماری ثقافت اور میڈیا کی انہوں نے مہار پکڑی ہوئی ہے اور جہاں ان کا جی چاہتا ہے لے کر جارہے ہیں جو کہ کسی بھی قوم کی کسی بھی علاقے کی ثقافت نہیں اور اگرااس حکومت و نام نہاد علماء سے نہ ہوسکا تو قدرت نے اپنا ایکشن لینا ہے ۔اس ثقافت کی یلغار والوں کے ساتھ بھی کچھ یوں ہونے والاہے آپ نے تو سن رکھا ہے کہ چوہوں کی محفلیں اکثر ہوتی رہتی ہیں جن میں بڑے بوڑھے چوہے بچے اور جوان چوہوں کو گُر سکھاتے ہیں اور انہیں پرانے زمانے کے قصے سناتے ہیں ایک دفعہ ایک چوہا جنگل میں سے گزر رہا تھا کیا دیکھتا ہے کہ ایک اونٹ گزر رہا ہے اور اس کی مہار زمین پر گری ہوئی ہے اور زمین گھسیٹتے جارہی ہے چوہے نے سن رکھا تھا کہ اونٹ کی مہار جس کے پاس ہو وہ اسکا مالک ہوتا ہے اور اس کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے بس کیا تھا چوہے صاحب نے اس کی مہار منہ میں پکڑ لی اونٹ نے نیچے چوہے کی طرف دیکھا اور مسکراکر اس کے پیچھے ہو لیا چوہا اونٹ کو لیکر کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف،، آگے جاتے ہوئے پہاڑ آگیا چوہا چڑھا اونٹ بھی چڑھ گیا یہ معرکہ بھی سر ہوا لیکن جناب اب آگے ندی آگئی چوہا ندی کنارے کھڑا سوچنے لگا تب اونٹ نے ہنس کر کہا کہ مالک بننے کے لئے مالک جتنا دماغ بھی چاہیے اور اپنا بھاری بھرکم پائوں اٹھاکر چوہے کی چٹنی نکا ل دی۔ لگتا یہ ہے کہ ہماری اس مصنوعی ثقافتی یلغار کا بھی یہی حشر ہوگا اور اس آلودگی کے ساتھ آلودگی پھیلانے والوں کی بھی چٹنی نکل جائے گی۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''