4 229

زراعت کی خبر لیجئے

زراعت کو کینیڈا میں خاص اہمیت حاصل ہے’ وہاںکے90فیصد کسان برآمدات پر انحصار کرتے ہیں’ کینیڈا کو دنیا کا پانچواں بڑا زرعی برآمد کنندگان میں شمار کیا جاتا ہے’ کینیڈا کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں پر اگر کوئی زراعت سے منسلک ہونا چاہتا ہے تو زمینوں کی فراہمی کیساتھ ساتھ زرعی ادویات اور دیگر اخراجات حکومت کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں بلکہ زمینوں کو آباد کرنے پر حکومت کی طرف سے کسانوں کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان بھی کیا جاتا ہے’ بھارت کے سکھوں کی اکثریت کینیڈا میں زراعت سے منسلک ہے اور کثیر زرمبادلہ کیساتھ ساتھ بھارت میں زراعت کے شعبے میں جو بہتری دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ بھارت کے کسان کینیڈا سے زراعت کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ممالک کے کسان آج بھی قدیم طریقوں سے زراعت کر رہے ہیں، ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے زراعت کے طریقۂ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔سائنسدانوںکا کہنا ہے کہ اب فارمنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے’ اب ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے اسی قطۂ زمین پر 70فیصد زیادہ کیلوریز پیدا کر سکتے ہیں۔ کم جگہ اور کم پانی کیساتھ زیادہ سے زیادہ اجناس کے حصول نے ایک نئی اپروچ ”کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر” کو جنم دیا ہے۔ کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن جدید زراعت کی ٹیکنالوجیز کو اپنانے والے ممالک میں کئی درجے پیچھے ہے۔ پاکستان کا 21.2ملین ہیکٹر رقبہ قابل کاشت ہے اور اس میں سے80فیصد رقبہ پانی کی نعمت سے مالامال ہے لیکن اس کے باوجود ہم زرعی پیداوار میں وہ مقام حاصل نہیںکر پا رہے جو معمولی توجہ کے بعد بہ آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پوری دنیا کی زراعت جدید ٹیکنالوجی پر منتقل ہو رہی تھی تو ریاست کی طرف سے جو لوگ زراعت کی ترقی کیلئے مامور تھے ان کا زراعت کی ترقی میںکیا کردار رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کا نہری نظام دنیا کے پہلے نمبر پر شمار ہوتا تھا لیکن ہم نے اس سلسلے میں خاطرخواہ کام نہیں کیا آج پاکستان میں زراعت کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ہمارے ہاں آب پاشی کا جو نظام رائج ہے اس سے بہت زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اپنے کاشتکاروں کو 92بلین ڈالر سے زائد کی سبسڈی دے رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے پاکستانی پنجاب پورے ہندوستان کو گندم فراہم کرتا تھا مگر آج ہم خود گندم کے محتاج ہیں’ اسی طرح ہماری کپاس کا دنیا بھر میںکوئی ثانی نہیں تھا لیکن آج ہمیںکپاس بھی درآمد کرنی پڑتی ہے۔چند ماہ قبل ملک بھر میں گندم وآٹے کا بحران پیدا ہوا تو حکومت نے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں پہنچنے کے بعد لگ بھگ5ہزار فی من میں پڑی لیکن دوسری طرف ہم اپنے کاشتکار کو اس کی محنت کا مناسب صلہ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں’ اس سال گندم کی جو قیمت رکھی گئی ہے وہ 1650روپے فی من ہے’ اس کیساتھ بھی امدادی کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ اگر حکومت زراعت کی طرف توجہ دے اور کاشتکاروں کا خیال رکھے تو غذائی اجناس میں ہمیں بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ ہی ہمارا کاشتکار مسائل کا شکار ہوگا۔امریکہ جیسا صنعتی ملک جہاں کسی زمانے میں ہر طرح کی صنعتیں تھیں’ وہاں پر جب ماحولیات کا مسئلہ پیدا ہوا’ فضا میںکاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر کی مقدار میں اضافہ ہونے لگا تو عوام وخواص میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی جانے لگی جس کی وجہ سے امریکہ نے اپنے عوام کی تشویش دور کرنے کیلئے اپنی صنعتیں چین’ کوریا’ تائیوان اور اس طرح کے دیگر ایشیائی ممالک میں منتقل کر دیں حتیٰ کہ ان کے کپڑوں کی برانڈڈ کمپنیوں کی تمام صنعتیں منتقل ہو چکی ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ میں کاشتکاروں کو بے انتہا مراعات اور غذائی اجناس پر بے تحاشا سبسڈی دی جا رہی ہے کیونکہ ماحولیات کیساتھ ساتھ انہیں زراعت کی اہمیت کا بھی اندازہ ہے۔ آج دنیا جن طریقوں کو ترک کر چکی ہے’ پاکستان میں انہیں اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے’ ہمارے ہاں صنعتوں پر زور دیا جارہا ہے’ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کورونا میں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں فیکٹری اور کارخانے بند ہوگئے لیکن زمیندارہ چلتا رہا ہے، اس میں کسی قسم کا تعطل نہیں ہوا، اس لئے حکومت کو چاہئے کہ زراعت پر توجہ دے تاکہ کسان کی خوشحالی کیساتھ ساتھ ہمارے معاشی مسائل بھی حل ہوں۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ