p613 187

مشرقیات

مسلمانوں کا ایک دور تھا جب علم دین ان کی پہلی اور آخری خواہش ہو ا کرتی تھی ۔ انہی لوگوں میں فن ادب کے مشہور امام ، امام کسائی بھی شمار کئے جاتے تھے ، ان کی علمی حمیت بڑی تیز اور حساس تھی ، جس کو جوش میں لانے کیلئے ایک چھوٹی اور ادنیٰ سی تحریک ہی کافی ہوگئی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ حسب معمول یہ مجلس علم میں تشریف لے گئے ، تو راستے کی طوالت اور صعوبت سے تھک چکے تھے ، چہرے پر اس کے آثار ہویدا تھے ، اپنی طبعی شکستگی اور خستگی ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے ” عییت ” کا لفظ ادا کیا جس سے مراد یہ تھی ” میں تھک گیا ہوں ” مجلس علم وادب کی تھی ، ذوق سلیم پر ان کا یہ لفظ گراں گزرا اور مجلس میں بعض اہل علم نے امام کو غلطی پر ٹو کا اور کہا کہ تم غلط لفظ استعمال کر رہے ہو ؟ اور پھر کہنے لگے کہ اگر اس لفظ سے تمہاری مراد ” ماندگی ” ہے تو ”عییت ” کہنا چاہئے تھا اور اگر ”درماندگی ” کا اظہار مقصود ہو تو ” عییت ” کہنا چاہئے ۔ امام کسائی کے دل میں بھری محفل میں اس اعتراض اور تخفیف نے زخم کر دیا ، دل پر ایک چوٹ لگی اور ایسی چوٹ کہ فوراً اس محفل سے نکلے اور دل میں تہہ کرلیا کہ اس فن (ادب) کو مکمل سیکھنا چاہئے ۔استاد کی تلاش میں نکلے اور لوگوں کی رہنمائی پر امام خلیل بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر اس فن میں وہ محنت کی کہ مقام امامت پر جا پہنچے لیکن شاید ان کی آزمائش مکمل نہ ہوئی تھی اور مزید آمائش ان کی منتظر تھیں ۔ چنانچہ انہی دنوں میں آپ گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک بدو نے آپ پر طعن کیا کہ تم لوگ کہاں ،ادب بنو تمیم اور بنو اسد کو چھوڑ کر عربیت حاصل کرنے بصرہ آئے ہو ، بھلا یہاں کتنا ادب حاصل کر سکو گے ؟ یہ چھبتا ہوا فقرہ ان کے دل میں اتر تا چلا گیا اور اپنے استاد خلیل بصری سے انہوں نے پوچھ لیا کہ آپ نے فن کہاں حاصل کیا ؟ استاد نے جواب دیا حجاز ، تہامہ اور نجد کے جنگلوں میں ۔ بس پھر کیا تھا ،کسائی کے سر میں ایک نیا سودا پید اہوا اور تحصیل علم کی خاطر شہروں کو چھوڑ کر جنگلات کا رخ کیا اور اتنا پھر ے اتنا پھرے کہ ان سے فن ادبا کا کوئی پہلو اب پو شیدہ نہ رہا ، حتیٰ کہ اس فن میں بڑے امام بن گئے ۔
(ارباب علم وکمال اور پیشہ رزق حلال صفحہ نمبر 160)
حجا ج دو آدمیوں کو سزادے رہاتھا ، ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اے حجاج ! مجھ کو سزا نہ دے ، میرا ایک حق تیرے اوپر ہے ۔ حجاج نے دریافت کیا وہ کونسا ہے ۔ اس نے کہا آپ کو ایک شخص گالی دے رہا تھا ، میں نے اس کو روک دیا تھا ۔ حجاج نے کہا کوئی گواہ ہے جو تیری تصدیق کرے ۔ اس نے کہا یہ برابر والا آدمی گواہ ہے ، جو کہ اسیر ہے ۔ حجاج نے اس سے پو چھا تو اس نے کہا یہ واقعی ٹھیک کہتا ہے ۔ حجاج نے گواہ سے پو چھا تو گالی دینے کو کیوںمنع نہ کیا ؟ اس نے حق گوئی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ میں تجھے اپنا دشمن سمجھتا تھا ، اس لئے خاموش رہا ۔ حجاج نے باوجود اس قدر سنگدل وظالم ہونے کے اس کی سچائی پر ان دونوں کو رہا کر دیا ۔ (مخزن صفہ نمبر 447)

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی