p613 189

مشرقیات

سیدنا عمر فاروق کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطاب آپ سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے، مکہ مکرمہ میں استقامت کے پیکر بن کے رہے، بعد ازاں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آگئے۔ حضوراقدسۖ نے آپ اور حضرت معن بن عدی انصاری کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرمایا۔
دورصدیقی میں جھوٹے مدعی نبوت، مسیلمہ کذاب کیساتھ جو تاریخی معرکہ یمامہ کے میدان میں ہوا، اس روز سپہ سالار حضرت خالد بن ولید تھے۔ انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیس کے ہاتھ میں اور مہاجرین کا جھنڈا سیدنا زید بن خطاب کے ہاتھوں میں تھا۔
نہار بن غنفوہ نام کا ایک شخص جو پہلے تھوڑا عرصہ ایک منافق کے روپ میں مدینہ منورہ رہ چکا تھا، پھر آکر مسیلمہ کذاب کیساتھ مل گیا اور لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے لگا کہ حضور نے (نعوذباللہ) مسیلمہ کذاب کو اپنی نبوت میں شریک کر لیا تھا۔
یہی شخص جنگ یمامہ میں آکر مجاہدین ختم نبوت، صحابہ وتابعین وغیرہم کو للکارنے لگا ”کون ہے جو میرے مقابلے میں آئے؟” کفر کے اس نمائندے کو گرانے کیلئے اسلام کا شیر جو سب سے پہلے میدان میں اترا، وہ حضرت زید بن خطاب ہی تھے۔آپ نے جلد ہی اسے ٹھکانے لگا دیا۔ بلند جذبے کیساتھ خود بھی لڑتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی حوصلہ فراہم کرتے رہے، بالآخر اسی میدان میں جام شہادت نوش کر کے اپنے رب سے جاملے۔
ان کی وفات سے حضرت عمر فاروق کو بہت گہرا صدمہ پہنچا، آپ اکثر ان کو یاد کر تے تھے۔ ایک روز آپ حضرت متمم بن نویرہ کے پاس بیٹھے تھے، ان کے بھائی کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ پوچھا تمہیں اپنے بھائی کا کس قدر غم ہے؟ وہ بولے ”میں تو اس کے صدمے میں رورو کر آنکھوں کی بینائی لٹا چکا ہوں، آنسو ہیں کہ تھمتے ہی نہیں”۔
انہوں نے اپنے بھائی کی یاد میں طویل مرثیہ بھی کہا تھا۔ حضرت عمر فاروق بھی غمگین لہجے میں بولے: ”کاش میں اشعار کہنے پر قادر ہوتا، اس پر ایسے مرثیہ خواں ہوتا، جیسے تم اپنے بھائی پر ہوئے”۔حضرت متمم نے آپ کو حوصلہ دلاتے ہوئے کہا ”اگر میرا بھائی یوں جام شہادت نوش کرتا تو میں اس کی جدائی میں ایک آنسو بھی نہ بہاتا”۔
اس بات سے سیدنا عمر کو بہت حوصلہ ہوا، لیکن سیدنا زید جیسا شخص ایسا نہیں تھا کہ اسے بھلایا جا سکے۔ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے: ”بے شک یہ بادصبا جب بھی چلتی ہے میرے بھائی زید کی خوشبو اڑا لاتی ہے”۔
(واضح ہو کہ شریعت میں بین اور نوحہ کو پسند نہیںکیا گیا، لیکن آنسو بہانے پر کوئی روک ٹوک نہیں، اس لئے کہ جب صدمہ پہنچتا ہے اور دل کٹتا ہے توآنسو روکنا بس میں نہیں رہتا)۔
(تاریخی واقعات)

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟