5 243

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

انتہائی ملنسار، خلوص ومحبت کا پیکر، ہر لمحہ مسکان چہرے پر سجائے، ہر بڑے چھوٹے سے جھک کر ملنے والے مرنجان مرنج انسان شین شوکت بھی بالآخر رخصت ہوگئے، بدقسمتی سے پشاور میں سارا دن موبائل نیٹ ورک پر قدغن کی وجہ سے بہت سے دوستوں کو بروقت اطلاع بھی نہ مل سکی،ایسے لوگوں میں خود ہم بھی شامل تھے،حالانکہ ایک دوست نے واٹس ایپ پر کال کے ذریعے ہمیں آگاہ کرنے کی کوشش ضرور کی تھی مگر ہم نے صورتحال کے پیش نظر اپنا موبائل فون طاق پر دھر دیا تھا اس لئے معلوم ہی نہ ہوسکا،رات کے وقت پتہ چلا تو تب دیر ہوچکی تھی اور کچھ ہماری طبیعت بھی ان دنوں زیادہ ”حوصلہ افزا” نہ ہونے کی وجہ سے ہم بھی ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے زیادہ تر گھر پر ہی محصور رہنے پر مجبور ہیں، یوں اپنے اس ہمدم دیرینہ کو رخصت کرنے سے ذاتی طور پر محروم رہے۔ شین شوکت سے ہمارے تعلقات لگ بھگ نصف صدی کا قصہ ہیں دوچار برس کی بات نہیں،کالج میں ہم سے بہت جونیئر تھے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، تو ان کی حیثیت بھی ”پالنے میں واضح” ہونے کے ناتے انہیں نمایاں ہونے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی اور شہر کی ادبی فضائوں میں وہ اور ان کے چند ساتھی جن میں مرحوم صابرحسین امداد،زیڈ آئی اطہر وغیرہ شامل تھے جلد ہی اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے، خصوصاً ہندکو زبان وادب کے ہر اول دستے میں شمار ہوتے چلے گئے، اگرچہ ان سے پہلے بزرگ شعراء کی ایک طویل فہرست موجود ہے جو ہندکو زبان کی آبیاری کرتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں میں ہندکو زبان کے مشاعرے منعقد کراتے رہے اور یہ مشاعرے ”عوامی” حیثیت کے حامل یوں تھے کہ شام کے اوقات میں کسی جگہ سٹیج بنا کر شہر بھر کے شعراء کرام اپنے شاگردوں کیساتھ شامل ہوتے، حسب روایت پہلے نوجوان شعراء ابتدا یوں کرتے کہ دادا اُستاد، پھراپنے اُستاد کی شاعری سناتے اور آخر میں اپنی غزلیں سنا کر وہاں اکٹھے ہونے والوں کو محظوظ کرتے، شین شوکت اور ان کے ساتھیوں نے بھی اگرچہ اسی ادبی ماحول میں پرورش پائی تاہم انہوں نے ہندکو شاعری کیساتھ ساتھ ہندکو نثر کو بھی فروغ دینے کیلئے ادبی اکٹھ بنا کر ادبی سفر شروع کیا اور زیادہ سنجیدگی کیساتھ اپنی ماں بولی ہندکو زبان کی خدمت کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ اس دور میں جہاں بزرگ ادیب وشاعر فارغ بخاری، رضا ہمدانی، مختار علی نیر، جوہر میر، اُستاد غلام رسول گھائل وغیرہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے،انہی میں داکٹر ناز درانی جیسے شاعر بے بدل بھی ان کیساتھ شامل تھے۔ کسی بھی زبان کے بزرگوں کے سنگ نو آموز قلم کاروں میں سے نوجوان شعراء کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ ایک حوصلہ افزاء مثال ہے اور یقینا اس سے شین شوکت، ناز درانی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی اپنی ماں بولی کیلئے پرخلوص خدمات کی درست وضاحت ہوتی ہے۔ شین شوکت کا ادب وشعر سے ناتا انہیں کتاب کے اس قدر قریب لایا کہ انہوں نے لائبریری سائنس میں گریجویشن کرنے کے بعد پشاور میونسپل کمیٹی، بعد میں میونسپل کارپوریشن کی لائبریری کے مہتمم کے طور پر فرائض سنبھالے اور اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی منصب سے وابستہ رہے۔ انہیں پشاور کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک اور اہم میونسپل لائبریری سے اس قدر عشق ہوگیا تھا کہ جب میونسپل کارپوریشن کی عمارت کو موجودہ ڈسٹرکٹ کونسل کی عمارت میں شفٹ کیا گیا تو اس اہم ترین قدیم لائبریری پر بھی برا وقت آگیا اور کروڑوں روپوں مالیت کی قدیم کتابوں، جن میں نادر ونایاب نسخوں کی بھی خاصی بڑی تعداد موجود تھی، کبھی گورگٹھڑی میں ایک تہہ خانے کے سیلن زدہ ماحول میں تو کبھی کچہری گیٹ کے قریب میونسپلٹی کی ایک عمارت کی غالباً تیسری منزل اس کا ٹھکانہ قرارپاتے رہے اور اس شفٹنگ کی وجہ سے بہت سی کتابیں ضائع ہوتی چلی گئیں۔ زندہ قومیں اس قسم کے قومی اثاثوں کی حفاظت کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں کتاب سے دوری نے ڈسٹرکٹ کونسل (سابق میونسپل کارپوریشن) کے کرتا دھرتا نام نہاد عوامی نمائندوں کو اس لائبریری کی اہمیت سے کوسوں دور رکھا اور وہ اس سے لاتعلقی کے مرض میں مبتلا رہے۔ شین شوکت بہت ہی مہمان نواز تھے ایک بار جب فارغ بخاری کے فرزند سید قمر عباس شہید کی شادی کی تقریب میونسپل کارپوریشن کے ہال میں ہورہی تھی توشہر کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی شعراء وادبا بڑی تعداد میں آئے تھے، اتفاق سے ولیمے کے موقع پر بارش شروع ہوگئی اور واپسی مشکل ہورہی تھی تو شین شوکت نے تمام ادباء وشعرا کو میونسپل لائبریری کے اندر اپنے دفتر میںلا بٹھایا اور چائے، قہوہ وغیرہ کے یکے بعد دیگرے کئی دور چلنے لگے۔ شین شوکت نے نائب قاصد کو بھیج کر بھنے ہوئے چنے اور مونگ پھلی منگوا کر پیش کی اور ایک بار پھر دودھ والا قہوہ منگوانے کا آرڈر دیا تو رضا ہمدانی نے ساتھ بیٹھے ہوئے ناصر علی سید سے کہا، شاہ جی! اس تمہارے یار نے شاید پہلی بار مہمان دیکھے ہیں، اس پر زبردست قہقہہ پڑا۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی