2 344

احساس کمتری کی دلدل سے باہر آئیے

ناشتہ کرنے سے پہلے ہی اخبار پہنچ جاتا ہے، ٹی وی کی سکرین تو ہر وقت روشن رہتی ہے جس پر کیا کچھ نہیں چل رہا ہوتا جو دل چاہے دیکھتے جائیے چوہے سے لیکر ہاتھی تک ہر قسم کی خبریں موجود ہوتی ہیں، اچھی بری ہر قسم کی خبریں جنہیں دیکھ کر اچھے بھلے آدمی کا بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے۔ پہلے بھی اس طرح کے حادثات وواقعات ہوتے تھے لیکن ان کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح نہیں پھیلتی تھیں، بے خبری بھی ایک طرح سے سکون واطمینان کا باعث تھی لیکن اب تو خدا کی پناہ! ہر چھوٹی بڑی خبر سب تک پہنچ رہی ہے، میڈیا پر باقاعدہ جنگیں لڑی جارہی ہیں، وطن عزیز میں ہونے والی سیاسی چپقلش کو میڈیا اتنا زیادہ اُچھالتا ہے کہ ہر آدمی چھوٹا موٹا سیاستدان بن کر رہ گیا ہے۔ یہ دور ہی میڈیا کا ہے، تہذیبوں کا ٹکراؤ ہر محاذ پر جاری ہے۔ لباس، رسم ورواج، تہذیب وتمدن، موسیقی اور دوسری بہت سی چیزیں اقوام عالم ایک دوسرے سے لے رہی ہیں ہم غیروں کی اندھا دھند تقلید کر رہے ہیں، یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس سفر کا اختتام کہاں ہوگا یہ سفر ہمیں کس سمت لے جارہا ہے، ہمیں اس ہڑبونگ میں اپنے نفع نقصان کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ دراصل یہ ایک رویہ ہے جب ہم کسی بھی تہذیب سے ذہنی طور پر مرعوب ہوجاتے ہیں تو پھر ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اس تہذیب کی اچھائیوں اور برائیوں پر غور نہیں کرتیں بلکہ اندھا دھند پیروی شروع کردیتی ہیں۔اقوام کے عروج وزوال کا مطالعہ اس حوالے سے بہت ضروری ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کا تنقیدی مطالعہ ہم پر سوچ وفکر کے نئے درکھول دیتا ہے جب ہم مختلف ادوار کے اہل فکر ودانش کے کام کو دیکھتے ہیں تو ہم پر سچائیوں کے بہت سے در وا ہوجاتے ہیں اور ہم اس قابل ہوجاتے ہیں کہ مختلف چیزوں کے بارے میں اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکیں اور یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب ہم مختلف تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی اچھی اور بری چیزوں پر غور وفکر کرتے ہیں، تخلیق کائنات پر غور کرتے ہیں لیکن جب یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو پھر غلط فہمیوںکے سیلاب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جن کا اپنا رنگ نہیں ہوتا ان پر ہر رنگ بڑی آسانی کیساتھ چڑھ جاتا ہے، آج ہم بھی اغیار کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، ہمارا آغاز کہاں سے ہوا؟ ہم نے اقوام عالم میں اپنے حصے کا کتنا کام کیا؟ دنیا کی ترقی کے حوالے سے ہمارا کردار کیسا رہا؟ بنی نوع انسان کی ترقی میں کتنا بھرپور کردار ادا کیا؟ ہم سے کتنی تہذیبیں متاثر ہوئیں؟ ہم نے دنیا والوں کو کتنے مفید علوم سے روشناس کروایا؟ تحقیق کے میدان میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دئیے؟ انسانیت کو ہماری ذات سے کتنا فائدہ پہنچا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہم نے غور کرنا ہے جن کو سمجھنا ہے جاننے کی کوشش کرنی ہے، دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی تہذیب زوال وانحطاط کا شکار ہوجاتی ہے تو اس کے اپنے ہی لوگوں کا اس پر اعتماد نہیں رہتا، وہ یہ نہیں سوچتے کہ انحطاط کے اسباب وعوامل دوسرے ہوتے ہیں جن میں جدید علوم سے بے خبری سرفہرست ہے۔ چارلس رچرڈ لکھتا ہے کہ جب قرون وسطیٰ کی تاریکی نے ہر چیز کو اپنے منحوس سائے سے ڈھانپ لیا تو غریب علم عربوں کی پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے یہ جملہ لکھ کر مسلمانوں کی تحقیر کرنے کی کوشش کی، یہ فقرہ دراصل تعصب آلود قلم سے لکھا گیا لیکن یہ جملہ عربوں کی توقیر میں بے پناہ اضافہ کر رہا ہے۔ ابن سینا اور رازی کی کتابیں صدیوں یورپ کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں، قانون ابن سینا یورپ کی یونیورسٹیوں کے نصاب سے اٹھارھویں صدی میں نکالا گیا عربوں کی پناہ لینے پر علم کی کونسی ذلت ہوئی؟ عربوں کو ایسی تہذیب کی اشاعت میں کس طرح ملامت کیا جاسکتا ہے جس نے سپین کے عربوں کو ایک صدی کے اندر اس درجے پر فائز کردیا جہاں تک پہنچنے میں یورپ کو صدیاں لگ گئیں۔ آج اگر ہم احساس کمتری کا شکار ہیں تو صرف اور صرف اس وجہ سے کہ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں بھی دوسری اقوام عالم سے بہت پیچھے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف کیساتھ یہ مسئلہ نہیں تھا۔ انگریز مورخ ایچ جی ویلز لکھتا ہے کہ اسلام اپنے ابتدائی دور میں ان پیچیدگیوں سے بالکل خالی تھا جس کی دلدل میں نصرانیت ایک مدت تک پھنسی رہی اور جنہوں نے اختلاف پیدا کرکے نصرانی روح کا خاتمہ کر دیا، اسلام میں کاہنوں کا طبقہ نہیں ہے بلکہ صرف عالم معلم اور واعظ ہیں جس طرح اسلام شجاعت کے جذبات پر مشتمل ہے جو صحرائی اقوام کا خاصہ ہے اسی طرح وہ رحمت اور عافیت فیاضی وکشادہ دلی اور اخوت ومحبت سے بھی معمور ہے اس لئے وہ عوام کی فطرت میں کسی قسم کی مخالفت کئے بغیر ان کے دلوں میں اُتر گیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپس کے فروعی اختلافات بھلا کر علم حاصل کریں تہذیب نفس کا علم، کائنات کا علم، نباتات کا علم، جمادات کا علم تاکہ ہم غور وفکر کر سکیں اپنے ہونے پر غور کرسکیں، اپنے آپ کو پہچان سکیں۔ احساس کمتری کی دلدل سے ہم اس وقت تک نہیںنکل سکتے جب تک ہم عصرحاضر کے علوم کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بنالیں۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے