p613 194

مشرقیات

ایک بے چارہ اللہ کا بندہ تھا جس کاکوئی بچہ نہ تھا، صبح وشام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ مولا ایک بیٹا عطا فرما! مگر اس کی دُعا قبول نہ ہوتی تھی۔ ایک دن بہت دل بھر آیا تو خوب رودھو کے دعا مانگی اور کہا کہ اے رب العزت! اگر تو نے مجھے ایک بیٹا عطا فرمایا تو اپنے جسم کے کپڑوں کے علاوہ اور جو کچھ میرے پاس ہے تیری راہ میں قربان کر دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی دُعا قبول کرلی اور اسے ایک بیٹا عطا فرمایا۔ کچھ نہ پوچھئے کہ خوشی سے اس کا کیا حال ہوا، جب آدمی کوخوشی ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے، رسول اللہۖ کا طریقہ یہی تھا۔ مکے میں آپ فاتحانہ داخل ہوئے تو کجاوے پر آپ کی پیشانی ٹکی ہوئی تھی اور زبان پر شکر وثنا کے الفاظ تھے چنانچہ اُس اللہ کے نیک بندے نے بھی شکر ادا کیا اور جسم کے کپڑوں کے سوا جو کچھ پاس تھا اس خوشی میں اللہ کی راہ میں لٹا دیا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے بچہ بڑا ہوتا گیا اور وہ خوشی سے نہال رہنے لگا، اُس نیک بندے کا ایک دوست تھا چنانچہ وہ بھی دن رات اپنے دوست کی خوشی میں شریک رہتا۔ کچھ دنوں بعد اُسے ایک کام سے سفر پر جانا پڑا۔کام کچھ ایساتھا کہ وہ برسوں باہررہا، جب لوٹا تو سب سے پہلے اپنے دوست سے ملنے گیا۔ سوچتا تھا کہ میرا دوست تو بہت خوش ہوگا لیکن جب اپنے دوست کے محلے میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ تو جیل میں پڑا ہے، اُسے بڑی حیرت ہوئی کہ ایسا نیک آدمی جیل کیسے گیا۔ لوگوں سے پوچھا کیابات ہوئی، انہوں نے کہا تمہیں معلوم ہے اس کا ایک لڑکا تھا؟ اُس بد بخت کی وجہ سے تمہارے دوست کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ دوست نے پوچھا کیوں؟ لوگوں نے کہا بڑا ہو کر وہ تو بڑا بدمعاش نکلا، یہ سن کر مسافر دوست کے منہ پر تالا لگ گیا۔ اس نے سوچا کہ اولاد کیلئے میرادوست دن رات دعائیں مانگتا تھا۔ اگر ایسا لڑکا اُس کی قسمت میں لکھا تھا تو اچھا ہوتا کہ وہ لاولد رہتا۔ بچوں کی کیفیت پودوں جیسی ہوتی ہے جسے مالی دن رات اُن کی دیکھ بھال کرتا اور ان کی تراش خراش میں لگا رہتا ہے، اسی طرح ماں باپ کو بھی بچے کو اپنی نظروں میں رکھنا چاہئے۔ برا ہو اولاد کی آنچ کا جو تربیت سے روک دے، تربیت سے بڑی نیکی کوئی اور نہیں۔ اولاد کو یہ نہ ملی تو کچھ نہ ملا، بے جا سختی اور ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار دونوں صورتیں بُری ہوتی ہیں۔ ان سے بچنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟