5 245

اے جذبہ دل گر میں چاہوں۔۔

”آج میں نے اللہ کے فضل سے بی ایس مکمل کرلیا ہے کہ جس کے پس منظر میں میری وہ دریدہ زندگی ہے کہ جس میں رات بارہ بجے تک میںاپنی ریڑھی کیساتھ کھڑا رہتا، جن میں کبھی ٹریفک پولیس کے حوالات میں پڑا ہوتا او ر کبھی کچہری، ہاتھوں میں ہتھ کڑی سجائے جج صاحب کے سامنے ضمانت کیلئے کھڑا ہوتا کیونکہ میںاپنی تعلیم کیلئے پیسے کمانا چاہتا تھا۔ مجھے اکثر میرے دوست کہتے کہ ہشتنگری میں فروٹ مت بیچا کروکہ تم پر تمہارے دوست اور پروفیسر ہنسیں گے۔ دکاندار مجھے اپنی دکان کے سامنے ریڑھی لگانے پر دھتکار دیتے تھے۔زمین جیسے مجھ پر تنگ کردی گئی تھی مگر میں نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ میں تعلیم پوری کروں گا” (فیس بک سٹیٹس)
چار برس قبل اس کو پہلی بار دیکھا تھا، ایک کمزور سا لڑکا بی ایس اُردو میں داخلہ لینے گورنمنٹ کالج پشا ور کے شعبہ اُردو آیا تھا۔ گورنمنٹ کالچ پشاور کے شعبہ اُردو میں نابغہ قسم کے اساتذہ کی موجودگی سے یہ شعبہ اطراف میں مقبول ہوچکا تھا بلکہ بی ایس اُرد و کا آغاز تو اس شعبے نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے پہلے کردیا تھا سو اس حوالے سے جہانزیب کالج سوات کے شعبہ اُرد و کیساتھ پورے صوبے میں گورنمنٹ کالج پشاور بی ایس اُردو کے حوالے سے مشاہیر کا درجہ رکھتی ہے۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے اس منحنی نوجوان کا انٹریوکیا تو اس نے بتایا کہ وہ ہتھ ریڑھی پر سبزی یا فروٹ بیچتا ہے بلکہ بچپن سے محنت و مشقت کرکے زندگی جی رہاہے۔ مجھے لگا کہ یہ لڑکا جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے محنت مزدوری کرتا ہے، یہ بھلا چار برس کی پڑھائی کیسے کر پائے گا۔ بی ایس کی تعلیم یوں بھی آسان نہیں، یکسوئی اور باقاعدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ اب ایک بندہ جو غم روزگار میں مبتلاہو کیسے اتنا ریگولر ہوسکتا ہے مگر اس برخوردار میں ایسا کچھ تھا ضرور کہ اسے داخلہ مل ہی گیا۔ اس جوان کی محنت مزدوری والی خوبی کیساتھ دو اور باتیں بھی ایسی تھیں کہ جو توجہ کھینچتی تھیں۔ ایک اس کا نام بڑا ادبی قسم کا تھا، اجمل فاروقی اور دوسرا اس کے چہرے پر ایک معصومانہ سی مسکراہٹ ہر وقت پھیلی رہتی تھی۔ اجمل فاروقی کو میں اکثر شام کے وقت اپنی ہتھ ریڑھی کے پاس کھڑا دیکھتا مگر یہاں بھی وہی معصومانہ مسکراہٹ اس کے چہرے کا ٹریڈمارک دکھائی دیتی۔ آج اجمل فاروقی بی ایس میں کامیاب ہوچکا ہے، چار سال کی اس کی محنت رنگ لے آئی ہے، اب وہ بڑی سہولت سے ادب کا اُستاد بن سکتا ہے۔ محنت مشقت کرنا بلاشبہ عظمت ہی ہے کیونکہ رزق حلال کو عین عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حالات کو تبدیل کرے اور اپنے پروفیشن کو تبدیل کرے۔ تعلیم اجمل فاروقی کا شوق تھا لیکن اس شوق پر اس نے اپنے فرض کو قربان نہیں کیا بلکہ اپنے گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے اپنی ہتھ ریڑھی سے خرچہ نکالتا رہا۔ اپنے شاگرد پر کالم باندھنا یقینا عجیب بات ہوسکتی ہے لیکن کبھی کبھی شاگرد بھی زندگی کا بہت بڑا اورگہراسبق پڑھا جاتے ہیں۔ مجھے بھی اجمل فاروقی نے شاگرد ہوکر ایک سبق پڑھا دیا کہ محنت اور لگن سے کچھ بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اجمل پشتوکے بڑے اخبارات اور جرائد میں چھپتا ہے۔ اجمل فاروقی نے ان تمام باتوں کو سچ کر دکھایا جو ایک اُستاد کتاب اور لیکچر سے اپنے طالب علموں کو سکھاتا ہے۔ منزل یقینا انہیں ملتی ہے جو منزل انسان اپنے تصور میں متعین کرلیتا ہے۔ ایک منزل تک کی جانے والی محنت اور مشقت بالآخر منزل تک پہنچاہی دیتی ہے اور منزلوں کا کیا ہے ایک مل جائے تو دوسری کی آرزو شروع ہوجاتی ہے اور انسان اس نئی منزل کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ آج کا کالم اسی نظرئیے کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ انسان بہت سی خواہشیں لیکرجیتا ہے لیکن خواہشوں کو اپنے زیر لانے کی سعی نہیں کرتا۔ اجمل نے فیس بک پر اپنی ایک تصویر ٹیگ کی ہے۔ اس کے سفید یونیفارم پر اس کے اساتذہ اور اس کے دوستوں نے اپنے اپنے کامنٹس لکھے ہیں۔ اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ہے، کالم کے آغاز میں اجمل ہی کا لکھا ہوا وہ سٹیٹس ہے جو روح کو چھلنی بھی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی جینے کا ایک حوصلہ بھی عطاکرتا ہے۔ عزم ایک بہت بڑی نعمت ہے اگر انسان اس عزم کیساتھ جینا سیکھ لے تو رکاوٹیں سہولتیں بن جاتی ہیں۔ زندگی اسی کا نام ہے، انسان خود کو زندگی کا ایندھن بنادے تو خواہشیں اس کے قدموں تلے آجاتی ہیں۔ باقی کامیابیا ں اور ناکامیاں تو اس ذات لایزال کے فیصلے پر منحصر ہوتی ہیں۔ یقینا انسان کی ایسی کوششوں پر خود یزداں بھی فخر کرتا ہوگا کہ جسے اس نے اپنا خلیفہ بناکربھیجا وہ اپنے شعور اور اپنے عزم وحوصلے سے کیسے کیسے کارنامے سرانجام دے ڈالتا ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان کسی عظیم فاتح، کسی بہت بڑے سائنسدان جیسا بڑا کام کرجائے کیونکہ یہ عظمتیں ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتیں لیکن کم ازکم انسان اپنی محدود زندگی میں اور محدود وسائل میں اجمل فاروقی جیسے انداز میں رکاوٹوں کو روند کرمنزلوں کے اُفق کی جانب سفر تو کرسکتا ہے۔ یوں تو شاگرد اپنے اُستاد کو سلام کرتے ہیں لیکن آج میں اپنے شاگرد اجمل فاروقی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ سلام ماسٹر اجمل فاروفی۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام