khalid shoail 3

ٹریفک پولیس ڈرائیونگ سکولز کی بندش۔۔۔

پروفیسر شاہ سعود پشتواردو کے بہت اچھے بلکہ بڑے شاعر ہیں ۔پشتو،اردو ادب کے علاوہ فلسفہ اور نفسیات کے علم کے عالموں میں شمار ہوتے ہیں ۔ مگر طبیعت کے بہت سادہ اور محبت کرنے والے ۔ کئی برس کے تعلق اور مزاجوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ خوب نبھتی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل شاہ جی کو مشورہ دیا کہ وہ دفتر موٹر سائیکل پرآیا کریں ۔شاہ جی نے مشورہ مان لیا اور ایک عدد بائیک خرید لی ۔ شروع میںزیر لب مجھ سے گلہ بھی کرلیتے کہ کس عذاب میں مبتلا کردیا ہے ۔کوئی راستہ ہی نہیں دیتا ۔ ڈرائیونگ میں مشکلات کا روز ذکر کرتے ۔ہم نے حل یہ نکالا کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کوہاٹ کے موجودہ پرنسپل پروفیسر شائس خان کو تاکید کی کہ شاہ صاحب کے ساتھ واپسی میں ورسک روڈ تک جایا کریں کچھ ڈر تو کم ہوگا۔ پھر یہ ہوا کہ شاہ سعود ایکسپرٹ ہوگئے ۔ لیکن ہمیں کہاں سکون ملنا تھا ہم پیچھے پڑ گئے کہ اب موٹر کار لینی ہے ۔ شاہ صاحب شروع میں انکاری تھے لیکن کہیں انجانے میں میرا یہ”مسلسل” مشورہ ان کے منہ سے گھر والوں کے سامنے نکل گیا سو ان کے بال بچے بھی میرے ہمنوا بن گئے اور شاہ صاحب کو ایک عدد کار خرید نی پڑہی گئی ۔ میں یہی مشورہ ہمسایہ کالم نگار پروفیسر تنویر کو بھی اتنی بار دے چکا تھا کہ ان کو جیسے چڑ سی ہوگئی تھی اور وہ ہر بار کوئی نیا عذرلنگ بیان کرہی دیتے ۔ خیر اس کی تفصیل تو آگے آئے گی ۔مسئلہ یہ تھا کہ ڈرائیونگ کہاں سے اور کیسے سیکھیں شاہ صاحب ۔ ہم نے شاہ صاحب کوٹریفک پولیس ڈرائیونگ سکول پشاور سے ڈرائیونگ سیکھنے کی صلاح دی ۔ شاہ صاحب بھی جیسے تیار بیٹھے تھے ،آؤ دیکھا نہ تاؤ اور داخلہ لے لیا ۔شاہ سعود اس ڈرائیونگ سکول سے بہت خوش تھا ۔ ایک تو بقول ان کے سٹا ف بڑا مہذب اور پروفیشنل تھا ۔اور سیکھنے کی گنجائش بھی بہت تھی ۔ یہاں تک کہ خواتین بھی بڑے اعتماد کے ساتھ اس سکول میں داخلہ لیتیں اور ایک بہت اچھے ماحول میں اعلیٰ کوالٹی کی ڈرائیونگ سکلز سیکھ لیتیں۔ نہ صرف ڈرائیونگ بلکہ گاڑ ی کے متعلق اچھی خاصی معلومات بھی ڈرائیونگ سکول کے انسٹرکٹر سکھا دیتے تھے ۔مجھے یہ سن کر شدید حیرت ہوئی کہ ایسا کیوں کیا گیا ۔سو چند معلومات اکٹھی کیں تو علم ہوا کہ ٹریفک پولیس ڈرائیونگ سکول پشاورکی کینٹ پشاوراور حیات آباد پشاور دو شاخیں تھیں۔ ایک بیچ میں 80لوگوں کو داخلہ ملتا تھا ۔جبکہ ایک ماہ میں لوگ ڈرائیونگ وغیرہ سیکھ جاتے تھے ۔ تقریباً2000لوگ سالانہ اس ادارے سے ڈرائیونگ سیکھ لیا کرتے تھے ۔ اس ادارے کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہاں سے سیکھنے والے ڈرائیورز تما م ٹریفک قوانین سیکھ لیتے تھے ۔ ساتھ ہی انسٹرکٹر زسے ٹریفک قوانین کی پاسداری کا سبق بھی لے لیتے تھے ۔ یہی ادارہ اکثرتعلیمی اداروں میں ورکشاپس منعقد کرکے ٹریفک قوانین سے عوام بالخصوص نوجوانوں کو آگاہ کیا کرتا تھا ۔ سو اب ادارہ نہیں تو ورکشاپ بھی نہ ہوں گی ۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ اس ادارے کو سٹبلیش کرنے میں حکومت کی ایک خطیر رقم لگی ہوگی ۔ جو اس ادارے کی بندش کے بعد یقینا ضائع ہوگئی ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ اس ادارے کے حوالے سے کبھی کوئی منفی خبر یا شکایت بھی منظر عام پر نہیں آئی پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ ایک موقر ادارے کو سرے سے بند ہی کردیا گیا کہ جس پر عوام کا بھرپور اعتماد تھا۔ اگر خدانخواستہ اس ادارے میں ایسا کوئی غیر قانونی کام ہوا ہے یا کرپشن ہوئی ہے تو اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے ۔ سزا بھی ان کو ملے جنہوں نے کچھ غلط کیا ہے ۔ یہ تو عوام کو سزا ملنے کے مترادف ہے ۔ کم از کم ایسا تو بالکل نہیں ہوگا کہ اس سکول کوضرورت باقی نہ رہنے کی وجہ سے بند کیا گیا ہو ۔کیونکہ اس وقت صرف پشاور میں 40کے قریب پرائیویٹ ڈرائیونگ سکول چل رہے ہیں ۔ اسی قسم کے بہت سارے ڈرائیونگ سکول پورے صوبے میں موجود تھے لیکن سب کے سب بندکردیے گئے ہیں ۔ حالانکہ اپنی بہترین پروڈکشن کی وجہ سے یہ مقبول ادارے سراہنے کے قابل تھے ۔ یہاں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ پرائیویٹ ڈرائیونگ سکول ایک کورس کے آٹھ سے بارہ ہزار روپے فیس لیتے ہیں ۔ بعض کی فیس تو اس سے بھی زیادہ ہے ۔ جبکہ ٹریفک پولیس ڈرائیونگ سکول کی فیس صرف 3500روپے تھی جو کہ بہت ہی کم تھی اور معیار ایسا تھا کہ جس تک پرائیویٹ سکول پہنچ ہی نہیں سکتے تھے ۔ یقینا ارباب اختیار نے اس مقبول ڈرائیونگ سکول کو بندکرنے کا فیصلہ کسی بہت بڑے جواز کی بنیاد پر کیا ہوگا۔ جس کا مجھے علم نہیں ہے ۔لیکن ایک شہری کی حیثیت سے میں ٹریفک پولیس کے ارباب اختیار سے ہمدردانہ اپیل کرتا ہوں کہ ان ڈرائیونگ سکولز کو دوبارہ عوامی خدمت کے لیے کھولا جائے تاکہ عوام اس کم خرچ بالا نشین سہولت سے مستفید ہوتے رہیں ۔ اور جو جواز اس کی بندش کا بنا ہے اسے کسی دوسرے قانونی طریقے سے ختم کیا جائے ۔ آج کی اس بے ہنگم ٹریفک میں کوالی فائیڈ اور ٹرینڈ ڈرائیورز کی بڑی ضرورت ہے ۔ بلکہ میں تو اس حد تک جاؤں گا کہ کسی بھی شہری کو ڈرائیونگ لائسنس دینے سے قبل دیکھنا چاہیے کہ اگرڈرائیونگ لائسنس کا امیدواراِن ڈرائیونگ سکول کا سند یافتہ نہیں توٹریفک پولیس ڈرائیونگ سکول سے کم ازکم ایک ہفتے کی ٹریننگ لازمی قراردی جائے ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!