3 248

مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟

قلعہ کہنہ قاسم باغ سٹیڈیم ملتان کو تالے لگانے اور مبینہ طور پر وہاں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا جلسہ منعقد ہونے سے پہلے پانی چھوڑنے والوں میں ایسے لوگ شاید موجود نہیں جن کو یہ یاد ہو کہ جب بھٹو مرحوم نے اپنے خلاف لاہور میں جلسے کو روکنے کی کوشش کی تھی تو وہاں جلسہ گاہ میں صرف پانی ہی نہیں چھوڑا تھا بلکہ اس کے باوجود بھی اس وقت کی اپوزیشن باز نہیں آئی تو تاریخ کے صفحات میں یہ بھی درج ہے کہ جلسے کے دوران وہاں سانپ بھی چھوڑ دیئے گئے تھے ،پھر ظاہر ہے جو بھگڈر مچی تھی اس کے بعد جلسہ تو الٹنا ہی تھا تاہم یہ سب تاریخ ہے اور تاریخ ہمیںیہ بتاتی ہے کہ اس کے بعد بھٹو مرحوم کا انجام کیا ہوا تھا،تادم تحریر تو یہ اطلاعات ہیں کہ قاسم باغ سٹیڈیم کے تالے توڑ کر پیپلزپارٹی کے جیالوں نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے برخورداروں موسیٰ گیلانی اور علی گیلانی کی قیادت میں سٹیڈیم کے دروازوں پر لگے تالے توڑ کر جلسہ گاہ پر تصرف حاصل کرلیا ہے جبکہ سرکاری حلقوں نے دھمکی دی ہے کہ سٹیڈیم کے تالے توڑنے والوں کے ہاتھ توڑیں گے اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے حزب اختلاف والے کہہ رہے ہیں کہ حکومت کورونا کی آڑ میں پناہ لے رہی ہے جبکہ ادھر پشاور میں ایک معاون خصوصی نے فرمایا ہے کہ پی ڈی ایم جلسے کے بعد پشاور میں کورونا پھیلا،تاہم بعض تجزیہ نگار یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ایک بار پھر کورونا کا رونا رونے والوں نے ہسپتالوں میں کونسے خاص اقدامات اٹھائے ہیں ان کا بس تو صرف تعلیمی اداروں پر چلتا ہے جبکہ اب تو شادی ہالوں پر دوبارہ پابندی لگانے کو بھی نرم کرتے ہوئے انہیں اپنا کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔یہی صورتحال تجارتی پابندیوں کے حوالے سے بھی ہے اور ایس اوپیز پر سختی سے کاربند رہنے والوں سے تعرض نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،گویا احتیاط کا دامن تھامنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی،مگر اسے کیا کیا جائے کہ لوگ خود ہی احتیاط نہیں کرتے ،اب جہاں تک ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کو ناکام بنانے کیلئے جرحربے آزمائے جارہے ہیں ان کی حقیقت تو پی ڈی ایم والوں نے میں نہ مانوں کی سوچ میں لپیٹ کر ردی کی ٹوکری میں اس لئے پھینک دی ہے کہ بقول بعض تجزیہ نگاروں کے ملتان کا جلسہ دونوں خصوصاً سرکار کیلئے امتحان ہے اور وہ دراصل اسے لاہور کے جلسے کو روکنے کیلئے ریہرسل یا قلعہ کہنہ قاسم باغ سٹیڈیم کے حوالے سے نیٹ پر یکٹس سمجھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہتی ہے یعنی اگر ملتان کا جلسہ ناکام بنادیا گیا جس کیلئے سٹیڈیم کے پانچ دروازوں سے آنے والے راستوں کو”محفوظ” بنانے کیلئے کنٹینرز لگا دیئے گئے تھے ،بلکہ ملتان میں داخلے کے راستوں کو بھی رکاوٹیں لگا کر سیل کر دیا گیا ہے ممکن ہے کہ اس روزپشاور میں آزمایا ہوا نسخہ وہاں بھی استعمال ہو یعنی ملتان اور گردونواح میں موبائل نیٹ ورک پر قدغنیں لگا کرناکارہ کر دیا جائے تاکہ باہر سے آنے والوں کو روابط میں مشکلات پیش آئیں،تاہم جس طرح سٹیڈیم کو سیل کرنے والے کنٹینرز کو پی پی پی کے جیالوں نے الٹ کر سٹیڈیم پر تصرف حاصل کرلیا ہے ممکن ہے ملتان کے مختلف سمتوں سے آنے والی شاہراہوں کو بھی جیالے واگزار کروانے میں کامیاب ہوسکیں،البتہ یہ جو پکڑ دھکڑ کے بعد جیالوں سے اس بات کی تحریری ضمانتیں طلب کی جارہی ہیں اور”قانون شکنی”کی صورت میں ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اس کا کیا علاج سوچا جارہا ہے فی الحال اس حوالے سے پی ڈی ایم والوں کا ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں تو سٹیڈیم پر قبضے کی پاداش میں سید علی گیلانی کو حراست میں لینے اور30دن تک قید میں رکھنے کی خبریں سامنے آئی ہیں صورتحال کاجائزہ لینے کیلئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ملتان پہنچ گئے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کچھ بھی کرلے جلسہ تو ہوگا،یاد رہے کہ بلاول کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے اب جلسے سے آصفہ بھٹو زرداری خطاب کریں گی اور میاں نوازشریف کی ہدایت پر مریم نواز بھی باوجود یکہ دادی کی وفات کے جلسے میں شرکت کریں گی تاکہ پی ڈی ایم کے جلسوں کے تسلسل کو برقرار رکھا جائے بہرحال جو صورتحال اس وقت ملتان میں بن رہی ہے اس کا نتیجہ آخر کیا نکلے گا اس لئے کہ نہ صرف ابھی جلسے میں تادم تحریر ایک روزباقی ہے یعنی جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی تب تک دونوں جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کیا رنگ جماتے ہیں حکومت جلسہ روکنے میں کامیاب ہوتی ہے یاپھر پی ڈی ایم پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کا رنگ جمانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی ہاں البتہ عوام یہ تماشا دیکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لے گی کہ”میں خود جمہوریت ہوں” کا دعویٰ درست ہے یا اس کی آڑ میں جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اور بقول افتخار عارف
بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟
کہانی اپنی الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں