4 237

کورونا ویکسین کا حصول

دولت’ سونا و جواہرات ‘ تیل و گیس کے ذخائر’ زمینوں اور پانی کے حصول کے لیے جنگوں کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ گذشتہ ایک سو سالہ تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ زور آور ممالک نے کمزور ممالک کے خزانوں کو لوٹنے کے لیے چڑھائی کی ہو۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے دنوںمیں کورونا کی ویکسین کے حصول کے لیے جنگیں ہوںگی ‘کیوں کہ جو ممالک ویکسین تیار کر چکے ہیں وہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو ویکسین اس لیے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پہلے وہ اپنی ضرورت پوری کریںگے’ ترقی یافتہ ممالک یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ نایاب و ناپید اشیاء کی من مانی قیمت وصول کی جا سکتی ہے۔ کورونا وائرس عالمی وباء ہے ‘ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ بلاتفریق رنگ و نسل ترقی پذیر اور غریب ممالک کو ویکسین فراہم کی جائے۔ اس ضمن میں یونیسف نے اعلان بھی کیا ہے کہ آئندہ سال ترقی پذیر اور غریب ممالک کو 2 ارب کورونا ویکسین دی جائے گی۔ جی 20 ممالک کے اجلاس میں بھی دنیا کے 20 ترقی یافتہ ممالک نے کورونا ویکسین کی مساوی تقسیم کا اظہار کیا ہے’ جبکہ عالمی ادارہ صحت نے کورونا سے قبل بچوں کی صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کے لیے ویکسین کی غیر مساوی تقسیم ہونے کی بنا پر 20لاکھ سے زائد بچے ویکسین سے محروم تھے’ اگر یہ غلطی دوبارہ دہرائی گئی تو ترقی پذیر اور غریب ممالک کے کروڑوں لوگوں کی صحت کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ عالمی قوتوں کے دوغلے پن کو ملاحظہ کریں کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو مفت ویکسین فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کے دعوے کر رہے ہیں جب کہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے کورونا ویکسین کی ایڈوانس بکنگ کے لیے امریکہ سے رابطہ کیا تو امریکی حکام نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم پہلے اپنی ضرورت پوری کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی دلچسپی پر حکومت نے 100ملین ڈالرز کی رقم مختص کی ہے جب کہ پاکستان چین کے اشتراک سے اپنی ویکسین بھی تیار کر رہا ہے جو کہ آخری مراحل میں ہے۔ پاکستان کی طرف سے پہلے مرحلے میں چینی کمپنی ”کین سائینو” کی ویکسین کے کلینکل ٹرائلز کا تفصیلی ڈیٹا طلب کیا گیا ہے’ چینی کمپنی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ ویکسین کے مکمل ٹرائلز میں دو ماہ کا وقت درکار ہے۔ اس کے بعد پاکستانی ماہرین بھی ویکسین پر غور کریں گے۔ اگر پاکستان میں اگلے دو ماہ میں کورونا وبا زور پکڑتی ہے اور اس کی ویکسین دستیاب نہیںہوتی ہے تو پاکستان میںکورونا کے حوالے سے کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ کئی رازوں سے اب تک پردہ اٹھ رہا ہے کہ لاک ڈائون سمیت جتنی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں اس کے باوجود کورونا کے پھیلاؤ میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے’ طبی ماہرین نے کہا تھا کہ ماسک پہننے کے بعد کورونا نہیں پھیلتا لیکن دوسری طرف بلاول بھٹو سمیت متعدد سیاسی رہنما اور ڈاکٹرز جو تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کر رہے تھے اس کے باوجود کورونا کا شکار ہو گئے۔ طبی ماہرین نے اب رائے تبدیل کی ہے کہ کورونا کو فی الحال مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا ہے ‘ اور بعض مریض تو ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ جو دو سے تین دن میں ہی موت کی نیند سو گئے’ طبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دیگر بیماریوں کی طرح کورونا کا علاج بھی ویکسین ہی ہے۔ ویکسین کے بعد ہی کورونا کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے’ اس لیے ویکسین کی تیاری یا حصول بہت اہمیت رکھتا ہے ‘ جس ملک کے پاس اپنی ویکسین ہو گی وہ کورونا کے علاج کے معاملے میں خود کفیل ہو گا اور جس ملک کو ویکسین کے لیے دیگر ممالک کی طرف دیکھنا پڑے گا اس کے لیے مشکلات ہوں گی۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ویکسین ترقی یافتہ ممالک کو مزید امیر کر دے گی جب کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک ویکسین کے حصول کے لیے مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ بعض طبی ماہرین کا خیال ہے کہ دو چار ماہ میں کورونا ویکسین کا حصول ممکن نہیںہو سکے گا بلکہ اس کی دستیابی میں مزید دو سال کا عرصہ لگ جائے گا۔ ابھی تک کورونا ویکسین کی عام دستیابی ممکن نہیںہو پائی ہے ‘ لیکن امریکہ نے قبل از وقت ہی مختلف دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ کروڑوں ویکسین کے حصول کے لیے معاہدے کر رکھے ہیں۔ اسی طرح دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بھی دنیا کی بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ویکسین کے لیے نہ صرف معاہدے کیے ہوئے ہیں بلکہ دوا ساز کمپنیوں کو ایڈوانس پے منٹ بھی کر دی گئی ہے۔ ایسے حالات میں خدشہ ہے کہ کورونا ویکسین مارکیٹ میں آتے ہی فروخت ہو جائے گی۔ دوسری طرف دسمبر کے آخر اور جنوری کے شروع میںکورونا کے پھیلائو میںخطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اس وباء سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ کام نظر نہیں آ رہا ہے’ ویکسین کی دستیابی بھی دعوئوں سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہی ہے’ اس لیے ترقی پذیر ممالک کو مشترکہ آواز بلند کرنی ہو گی تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کے لوگ بھی عالمی طاقتوں کے ایجنڈے میںشامل ہوجائیں ۔ اگر بروقت اس کا بندو بست نہ کیا گیا تو جس طرح ماضی میں پانی اور دیگر قدرتی خزانوں کے لیے جنگیں چھڑ جایا کرتی تھیں موجودہ دور میں کورونا ویکسین کے لیے جنگیں چھڑ جائیںگی۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن