1 307

او آئی سی میں زندگی کے آثار؟

اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کا نائیجریا میں ہونے والا سنتالیسواں اجلاس نتائج اور کارکردگی کے لحاظ سے ماضی قریب کے چند اجلاسوں سے نسبتاً حوصلہ افزاء ثابت ہوا۔ ماضی قریب کے اجلاسوں میں یوں لگ رہا تھا کہ او آئی سی ایک یا کئی ایک ملکوں کی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن کر رہ جائے گی جسے کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل سے اب کوئی سروکار نہیں۔ بھارت کے حوالے سے او آئی سی کی پالیسی نے اس تنظیم کے وجود کے آگے ہی سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے تھے، یہاں تک کہ ہم خیال مسلمان ملکوں نے کوالالمپور میں ایک ایسا اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کی تھی جسے او آئی سی کے متوازی پلیٹ فارم کے قیام کی ریہرسل کہا جانے لگا تھا۔ پاکستان نے عین وقت پر کوالالمپور کانفرنس سے باہر رہ کر او آئی سی کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر او آئی سی کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ چند ایک مسلمان ممالک تھے جنہوں نے بھارت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی تھی اور یہ وہی ممالک تھے جنہوں نے او آئی سی سے مایوس ہو کر کوالالمپور میں جمع ہونے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلا کر کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی کے بھارتی فیصلے پر واضح لائن لینے کے دباؤ بڑھانا شروع کیا مگر او آئی سی کی انتظامیہ نے پاکستان کی ان درخواستوںکو قابل اعتناء نہیں سمجھا جس کے بعد یہ سارا لاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان سے پھٹ پڑا اور انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر او آئی سی نے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلایا تو پاکستان ہم خیال ملکوں کا الگ اجلاس بلائے گا۔ پاکستان کی اس دھمکی کو پورے سیاق وسباق کیساتھ سمجھا گیا اور اس کے بعد پس پردہ سفارتکاری شروع ہوئی اور پاکستان کا غصہ کم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ پاکستان کی معیشت اگر عرب ملکوں کے تعاون سے کھڑی ہے تو عرب ملکوں کے دفاع میں پاکستان کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس لئے یہ تعاون یک طرفہ اور مفت کا نہیں بلکہ اس میں لو اور دو کاروباری اصول بھی کہیں نہ کہیں کارفرما ہے۔ اوآئی سی کی اس خاموشی کو نریندر مودی نے پانچ اگست اقدام کی تائید قرار دیا۔ کشمیریوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دنیا میں ان کا مونس وغم خوار سوائے پاکستان کے کوئی دوسرا مسلمان ملک نہیں اور پاکستان میں اب کشمیریوں کی حمایت کا دم خم باقی نہیں رہا۔ اس تاثر کو طیب اردوان اور مہاتیر محمد جیسے مدبر مسلمان راہنماؤں نے اپنے کردار وعمل اور فیصلوں سے رد کرکے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان ان کی حمایت میں تنہا کھڑا نہیں بلکہ مسلمان دنیا کے کئی مؤثر ملک بھی اس کے ہم آواز اور ہم رکاب ہیں۔ مودی کے پھیلائے گئے اس غلط تاثر کے خراب ہونے کا غصہ ان ملکوں کیساتھ کئی معاشی تعلقات میں کمی کی صورت میں سامنے آیا۔ ترکی اور ملائیشیا کو پاکستان کیساتھ کھڑا رہنے کی معاشی قیمت بھی چکانا پڑی۔ اب نائیجریا اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور کشمیریوں کے ایک وفد نے صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان کی قیادت میں شرکت کی۔ کشمیریوںکے وفد میں حریت راہنما غلام محمد صفی اور فیض نقشبندی شامل تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کھل کر کشمیر کے حالات بیان کئے اور پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی قراردادوں میں بھارت کی طرف سے اُٹھائے قدم کی مذمت بھی کئی گئی۔ اس اقدام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی توہین قرار دیا گیا۔ یہ قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئیں۔ پاکستان کو آئندہ تین سال کیلئے او آئی سی کی چھ رکنی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بھی منتخب کیا گیا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کا اگلا اجلاس پاکستان میں منعقد ہوگا۔ یہ ساری صورتحال بھارت کی طرف سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کی نفی ہے۔ نائیجریا اجلاس میںہونے والے فیصلوں سے او آئی سی میں زندگی کے آثار بھی پیدا ہوئے اور اس کے مستقبل کے حوالے سے شکوک اور غیر یقینی کے بادل بھی چھٹ کر رہ گئے۔ چھپن ملکوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے۔ یہ مسلمان اکثریتی ملکوں کی تنظیم ہے جس کا مقصد اپنی آبادیوں کی فلاح وبہبود اور مسلمانوں کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل ہے۔ اس اتحاد کے موجودہ ڈھانچے سے کسی انقلابی فیصلے کی توقع عبث ہے مگر اتحاد کے قیام اور وجود کا جواز باقی رہے یہ بھی غنیمت ہے۔ یہ ڈھیلا ڈھالا اتحاد بھی ختم ہو گیا تو مسلمانوں کے پاس جمع ہونے کیلئے کوئی پلیٹ فارم باقی نہیں رہے گا۔ دوبارہ اتحاد بنانے کیلئے نئے سرے سے جو محنت اور اتفاق رائے درکار ہے اسے موجودہ ماحول میں دوبارہ پیدا کرنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا یہ پلیٹ فارم جیسا تیسا ہے اسے برقرار رہنا چاہئے۔ فی الحال یہ بھی کافی ہے کہ سارک تنظیم کی طرح او آئی سی کو ہائی جیک کرنے کی بھارتی کوشش ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ بھارت مسلمان آبادی کا سب سے بڑا خطہ ہونے کی بنیاد پر او آئی سی کے خیمے میں سر دینے کا پرانا خواہش مند ہے۔ یہ خواہش مدتوں سے ایک خواب ہی ہے اور آئندہ بھی اس کو تعبیر ملنے کی اُمید نہیں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام