2 358

معاشرتی اور اخلاقی اقدار۔۔ شکست وریخت کا شکار

معاشرتی اور اخلاقی اقدار کسی بھی معاشرے کی شناخت اور پہچان ہوتے ہیں، ہر معاشرے کی بنیاد کچھ اچھی روایات سے مل کر بنتی ہے۔ یہ اپنے لئے آئیڈیل قسم کے اصول وضع کرتا ہے اور پھر ضروری قرار دیتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے۔ یہ اچھی اقدار ازل سے پسندیدہ سمجھی جا رہی ہیں اور اس کیخلاف عمل کرنے والے ناپسندیدہ افراد کہلاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اچھے اصولوں اور عادات سے دور ہوتا جارہا ہے اور ایسی شکست وریخت کا شکار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم کرے۔ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اور بقول قائداعظم کے یہ ایک تجربہ گاہ ہے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم کہتے تو خود کو عظیم مسلمان ہیں لیکن ہم نے عظیم اسلامی اصولوں کو بھلا دیا، ہمارے معاشرے میں وہ برائیاں درآئیں ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قدیم قوموں پر عذاب نازل کئے تھے لیکن ہم بلاخوف وخطر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اگر میں اہل سیاست کو لوں تو سیاست جو ایک باعزت اور باوقار فعل تھا آج شائستگی سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان منبروں پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کیخلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں کوئی مہذب شخص کم ازکم اپنے گھر میں وہ زبان برداشت کرنے کو تیار نہیں اور یقینا یہ سیاستدان بھی اپنے بچوں کو تاکید کرتے رہے ہوں گے کہ وہ یہ الفاظ استعمال نہ کریں لیکن سیاست جو اعلیٰ اخلاق کی توقع رکھتی ہے وہی اس سے عاری ہوتی جا رہی ہے حالانکہ مقابلہ بغیر ایک دوسرے کی بے عزتی کے بھی کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جانا چاہئے۔ پھر یہی اہل سیاست جب حکومت میں آتے ہیں تو کسی بھی قسم کی بدعنوانی یعنی کرپشن کو اپنے لئے جائز سمجھنے لگتے ہیں اور یوں عام عوام کیلئے ایک غلط مثال پیش کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ مرض عوام میں کچھ کم ہے اس کی یہاں بھی بہتات ہے اور ”فکر ہر کس بقدر ہمت اوست” یعنی جس کی جتنی پہنچ ہے اتنا حصہ وہ ڈال رہا ہے اور اتنا ہی دوسرے کو متاثر کر رہا ہے۔ قابلِ معافی وہ بھی نہیں جو صرف افسرانِ بالا سے ملاقات کروانے کے ہزار پانچ سو روپے لیتا ہے لیکن وہ ایک شخص کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس کی بساط اِتنی ہے اور حکمران پورے ملک کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس کی بساط اُتنی ہے۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کرپشن نے پورے معاشرے کو بیمار کر رکھا ہے۔ ٹیلنٹ دور کھڑا کہیں رو تا ہے جب سفارشی نوکری پاتے ہیں۔ برائے نام انٹرویو اور ٹیسٹ منعقد کروائے جاتے ہیں جبکہ نوکری اُسی کو دی جاتی ہے جس کا نام اوپر سے آتا ہے یا جو زیادہ رشوت دینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی حال عدالتوں کا ہے کہ ہزار روپے کا چور جیل کے اندر ہے لیکن اربوں کی گندم اور چینی کھا جانے والے بڑے طمطراق سے اپنی اپنی جاگیروں پر اپنے اپنے محلات میں آرام سے رہ رہے ہیں اور تو چھوڑئیے یہاں تو دوا دارو پر بھی مافیا کا قبضہ ہے، اگر ایک معاشرہ زندگی بچانے والی دوائیوں کو بھی پہنچ سے باہر کر دے تو اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔ دراصل کرپشن یہاں ہر شعبۂ زندگی میں سرایت کر چکی ہے جس کا جتنا بس چلتا ہے اتنی بدعنوانی کر رہا ہے۔ اگر پھل والا خراب پھل بیچتا ہے تو کارخانہ دار سستا خام مال استعمال کرتا ہے اور مصنوعہ یعنی پراڈکٹ مہنگے داموں بیچتا ہے جس کی اصل قیمت کہیں کم ہوتی ہے۔ اب اگر معاشرے کے دوسرے اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو اس کی حالت بھی کچھ کم خراب نہیں، ہم جھوٹ بولتے ہیں، بہتان طرازی کرتے ہیں، عدم برداشت کا ہم شکار ہیں اور یہی بظاہر چھوٹی نظر آنے والی خامیاں بڑی بڑی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ بنی پاک حضرت محمدۖ کے پاس ایک آدمی آیا اور اپنی کچھ برائیوں کا ذکر کیا اور فرمایا مجھے نصیحت کیجئے کہ کونسی برائی چھوڑ دوں، آپۖ نے بڑے بڑے گناہ کے کام مثلاً بدکاری اور جواء چھوڑ کر فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو، اُس نے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کر لیا۔ کہتا ہے رات کو جب شراب نوشی کا خیال آیا تو ہاتھ نہ لگایا کہ جب رسول اللہۖ صبح پوچھیں گے تو جھوٹ بولنا پڑے گا، اس طرح بدکاری کا سوچا اور جھوٹ بولنے کے ڈر سے چھوڑ دیا، جواء نہ کھیلا کہ پھر اسے چھپانے کو جھوٹ بولنا پڑے گا اور یوں تمام گناہوں سے بچ گیا لیکن ہم اپنے ہر گناہ کو جھوٹ کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرپشن، رشوت، سفارش، ذخیرہ اندوزی، بدکاری، بہتان طرازی اور الزام تراشی سب کچھ کئے جاتے ہیں کہ جھوٹ بول کر اسے چھپا لیں گے اور یوں خرابیاں آگے ہی آگے پھیلتی جاتی ہیں اور ہم پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے ہیں کیونکہ ہمیں کوئی خوف نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سب ایک ہی بیماری میں مبتلاء ہیں اسی لئے ایک دوسرے کا خوف نہیں اور خوفِ خدا سے ہم لوگ ویسے ہی بہت دور ہوتے جا رہے ہیں ہم اپنے دئیے کو چاند بنانے کے واسطے بستی کے سارے چراغ بھی بجھا دیں تو بھی ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک مستحکم قوم بنانے کا عزم کر لیں اور قرآن و سنت کو اپنا رہنما بنا لیں تو ہم اچھے معاشرے کی تعمیر کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات