2 361

چند پند سود مند

کل محمودشکری آلوسی کی مشہور زمانہ تالیف بلوغ الارب کا مطالعہ کرتے ہوئے چند سطروں نے دامن دل اپنی طرف کھینچ لیا سوچا کیوں نہ ان خوبصورت دانش مندانہ اقوال کو اپنے قارئین کیساتھ شیئر کیا جائے، ان میں ہم سب کے سیکھنے کیلئے یقینا بہت کچھ موجود ہے۔ شاہ عجم کسریٰ کے دربار میں ایک مشہور عرب سردار اکثم بن صیفی نے اپنی قوم کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: افضل ترین بادشاہ وہ ہے جن کا نفع سب سے زیادہ عام ہو اور بہترین خطیب وہ ہے جو سب سے زیادہ سچ کہے۔ صدق نجات کا سبب ہے اور کذب ہلاکت کا۔ ضد کرنا جنگ کی جڑ ہے، دانش مندی ایک تند مزاج سواری ہے، عاجزی آسان سواری ہے۔ نفسانی خواہش رائے کیلئے آفت ہے، کمزوری محتاجی کی چابی ہے۔ صبر تمام باتوں سے اچھا ہے، لوگوں سے میل ملاپ رکھ مگر ان سے اپنے آپ کو بچا کر رکھ۔ رعایا کی خرابی کی اصلاح کرنا حاکم کی خرابی کی اصلاح سے بہتر ہے (ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکتے رہنا چاہئے) بدترین بادشاہ وہ ہے جس سے بے گناہ لوگ ڈرتے رہیں۔ انسان عاجز آجاتا ہے مگر حیلہ عاجز نہیں آتا۔ بہترین اولاد وہ ہے جو والدین کی فرمانبردار ہو اور بہترین مصاحب وہ ہیں جو خیر خواہی کے معاملے میں ریاکار نہ ہوں۔ تمہارے لئے اسی قدر زاد راہ کافی ہے جو تمہاری منزل تک پہنچا دے۔ خاموشی حکمت ہے مگر کم لوگ اس پر عمل کرتے ہیں جس نے سختی کی اس نے لوگوں کو متنفر کردیا اور جس نے نرمی کی اس نے اُلفت پیدا کرلی۔ اس کے بعد حارث بن عباد اُٹھا اور کہا اے بادشاہ! جس کا مال جاتا رہے اس کی سخاوت بھی کم ہوجاتی ہے۔ کسی انسان کی عقل کی پہچان اس امر سے ہو سکتی ہے کہ وہ سنی ہوئی باتوں کو کس طرح بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد عمرو بن الشرید نے اُٹھ کر کہا اے بادشاہ! کلام کے انجام پر پہلے ہی سے غور کر لیا جاتا ہے، جو امور ایک جیسے ہوں وہ لائق اعتبار ہیں۔ کثرت میں بوجھ اور کم میں کفایت ہے۔ بادشاہوں میں اپنی طاقت کے زعم پر تیزی ہوتی ہے یہ وہ مقام ہے جس کا بعد کے آنے والے امور سے تعلق ہے۔ اس لئے جس نے یہاں شرف حاصل کر لیا وہ شریف ہوگیا اور جو گمنام رہا وہ گمنا م ہوگیا۔ ہمارے مال ہمارے لئے کمائی کا ذریعہ ہیں اور ہمیں اپنی طاقت پر اعتماد ہے۔ اگر ہمیں زمانہ مہلت دے تو ہم اعتدال پر رہتے ہیں۔ یہ سن کر کسریٰ نے کہا۔ ”تمہاری گفتگو کا اعتدال تمہارے حد سے بڑھ جانے کا پتا نہیں دیتا۔ اس کے بعد خالد بن جعفر الکلابی اُٹھا اور کہا: ہر گفتگو کا موقع محل ہوتا ہے، ہر جواب میں تکلیف پائی جاتی ہے، بولتے بولتے رک جانا زیادہ سخت ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ انسان خاموش ہی رہے۔ گفتار کی لغزش دشوار گزار راستے کی لغزش سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد علقمہ اُٹھا اور کہا، ہدایت کے راستے تمہاری نگاہوں پر عیاں ہوچکے ہیں بندگان خدا کی گردنیں تمہارے سامنے جھکی ہوئی ہیں، ہر بات کہنے کا الگ طریقہ ہے، رائے کیلئے دخل انداز ہونے کی گنجائش اور دشواریوں سے نکل جانے کی راہ موجود ہوتی ہے۔ بہترین قول وہ ہے جو سب سے زیادہ سچا ہو اور بہترین جستجو وہ ہے جو سب سے زیادہ کامیاب ہو۔ اس کے بعد عمرو بن معدی کرب نے کہا انسان کی ہستی دو چھوٹی چھوٹی چیزوں کے باعث ہے، دل اور زبان۔ گفتار کا پیغام یہی ہے کہ جو بات کہی جائے درست کہی جائے، وہ رائے جو ازخود اور آسانی سے حاصل ہو جبراً غور وفکر کرنے سے بہتر ہے، تجربے کی غرض سے توقف کرنا حیرت کی کجروی سے بہتر ہے۔ اپنے الفاظ کے ذریعے ہماری اطاعت کو اپنی طرف کھینچو اور اپنے حلم سے ہماری جلدبازیوں کو پی جاؤ، ہمارے لئے اپنے پہلو کو نرم کرو تاکہ تمہارے لئے ہمیں مطیع بنانا آسان ہو جائے کیونکہ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کے پتھر میں ان لوگوں کی منقاریں نقطے نہ ڈال سکیں جو ہمیں چبا جانا چاہتے تھے۔ ہم نے اپنی چراگاہوں کو ہر اس شخص سے بچائے رکھا جو ہم پر ظلم کرنے کا خواہاں ہوا۔ اس کے بعد حارث یوں گویا ہوا: جھوٹ گفتار کیلئے آفت ہے، چاپلوسی رذیل اخلاق میں سے ہے، رائے میں غلطی ہوجانے کی وجہ سے صاحب سطوت بادشاہ کی خفت ہوتی ہے، حق بات غصہ دلاتی ہے سرداری تغافل کا نام ہے، کوئی شخص اس وقت تک حلم کا اہل نہیں جب تک اس میں بدلہ لینے کی قدرت نہ ہو۔ کسریٰ نے کہا جو کچھ تمہارے خطیبوں نے کہا ہے میں انہیں سمجھ گیا ہوں اگر مجھے یہ بات معلوم نہ ہوتی کہ ادب نے تمہاری کجی کو سیدھا نہیں کیا تو میں تمہیں بہت سی ایسی باتیں کہنے کی اجازت نہ دیتا جو تم نے کہی ہیں۔ اب تم اپنے بادشاہ کے پاس چلے جاؤ اور اس کی اطاعت کا دم بھرتے رہو۔ اپنے یہاں کے بیوقوفوں کو روکو اور ان کی کجی کو سیدھا کرو انہیں اچھے ادب آداب سکھاؤ اس لئے کہ لوگوں کی بہبودی اسی امر میں مضمر ہے۔ اوپر بیان کی گئیں بہت سی روحانی بیماریاں جھوٹ، چاپلوسی، دھوکا، منافقت، لالچ، بزدلی، مال ودولت اور عہدے کی ہوس! ہم میں موجود ہیں اور یہی وہ خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم راہ راست سے بھٹکتے چلے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی