1 323

سینیٹ انتخابات کا موسمِ خزاں

وہ دن گئے کہ جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتا تھا کے مصداق وہ دن لد گئے جب سینیٹ کے انتخابات ووٹروں اور اُمیدواروں کیلئے موسمِ بہار ہوا کرتے تھے۔ انتخابات کی آمد آمد کیساتھ ہی ووٹر ارکان کی عزت اور قدر ومنزلت میں اچانک حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا تھا۔ تحفے تحائف، لنچ اور ڈنر کا سلسلہ جوبن پر آتا تھا، ارکان کی قیمتیں لگنا شروع ہوتی تھیں، یہ قیمتیں ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتی جاتی تھیں، یہاں تک کہ بات کروڑوں سے بھی اوپر چلی جاتی تھی۔ روپے پیسے کا بے دریغ استعمال ارکان کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کرتا تھا، یوں سینیٹ کا انتخاب اتوار بازار کا سماں پیدا کرتا۔ خفیہ رائے دہی کے عمل میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کون بکا اور کون کتنے میں بکا۔ بکنے والا اس مشکوک فضاء اور ماحول کا فائدہ اُٹھا کر دوبارہ پاک پوتر بن کر محفل میں واپس آکر براجمان ہوتا تھا۔ ایسے میں حکومت کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات نہ صرف قبل ازوقت بلکہ شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبل ازوقت انتخاب کا تعلق تو پی ڈی ایم کی تحریک سے ہے کیونکہ عمومی تاثر یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی ہنڈیا میں سارا اُبال سینیٹ انتخابات کی وجہ سے آیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ سینیٹ انتخاب سے پہلے ہی کسی سیاسی حادثے کے نتیجے میں حکومت کو رخصت کر دیا جائے کیونکہ موجودہ حالات میں حکمران جماعت ان انتخابات سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں ہوگی اور یوں قانون سازی کیلئے اپوزیشن پر انحصار مزید کم ہو جائے گا۔ خود اپوزیشن کی سودے بازی کی صلاحیت بھی کمزور ہوجائے گی۔ اسی لئے اپوزیشن جماعتیں حکومت کو اس منزل سے دور رکھنے کیلئے تہیۂ طوفاں کئے بیٹھی ہیں۔ حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھ سے سینیٹ کارڈ چھیننے کیلئے الیکشن وقت سے پہلے ہی کرانے کا راستہ منتخب کیا ہے۔ شو آف ہینڈ کی بات قطعی مختلف ہے، اس سے سینیٹ انتخابات کا موسم بہار اب قطعی اور کلی موسمِ خزاں ہو کر رہ جائے گا۔ خرید وفروخت کا خفیہ کاروبار اب اس انداز سے جاری نہیں رہ سکے گا جس طرح یہ ماضی میں چلتا رہتا تھا۔ اب ارکان اسمبلی کیلئے ہاتھ کی صفائی اور کمالات دکھانے کے مواقع بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ جس رکن نے وفاداری تبدیلی کرنا ہوگی وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرکے سرعام ووٹ ڈالنے کا پابند ہوگا۔ اس عمل میں پیسے کی گنگا جمنا میں غوطہ زن ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ انتخابات کے نام پر ضمیروں کی منڈی اور وسائل کا اتوار بازار سجائے جانے کا جو سلسلہ مدتوں سے جاری تھا اس عمل کے نتیجے میں رکاوٹ کی زد میں آئے گا۔ اپوزیشن کے ہاتھ سے سینیٹ کارڈ بھی نکل گیا تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا خود انہیں بھی اندازہ نہیں۔ لاہور جلسے کو آر یا پار قرار دینا قطعی ناتجربہ کاری اور سطحی لائن تھی۔ ایک جلسے سے آر یا پار کیسے ہونا تھا؟ جب آپ قانون کو ہاتھ میں بھی نہیں لیتے، انقلابی راہوں کی طرف گامزن ہونے سے گریز بھی کرنا ہے تو پھر آر یا پار کی بات کیا معنی رکھتی ہے؟ لاہور جلسہ میں کوئی انقلاب برپا ہونا تھا نہ ہوا بلکہ یہ پہلے سے جاری جلسوں اور پرانی تقریروں اور سوشل میڈیا پوسٹوں کا تسلسل ہی ثابت ہوا۔ یہ جلسے اور تقریریں اب عام آدمی کیلئے رہی سہی کسر کھو رہی ہیں۔ اس جلسے نے جیل میں پڑے اور غیر متعلق ہوتے ہوئے شہباز شریف کیلئے اظہارِ ذات کا ایک موقع فراہم کیا۔ شہباز شریف کو میاں نوازشریف کی پرچھائی اور پراکسی سمجھنے کے مائنڈ سیٹ کو یہ پیغام ملا کہ شہباز شریف اور ان کی سیاست ن لیگ میں غیرمتعلق نہیں ہوئی۔ ان کی ذات اپنا ایک وجود اور طاقت بنا چکی ہے۔ ”حمزہ حمزہ” کی مالا جپنے والے کارکن بروئے کار آکر شاید کوئی کمال تو نہ دکھا سکیں مگر روٹھ جائیں تو کسی انقلاب کا اسقاط کر سکتے ہیں۔ مریم نواز نے شہباز شریف پر ڈیلیور نہ کرنے کا الزام عائد کرکے اتحادی اور جماعتی سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی تو شاید انہیں حلقہ ارادت اور مفت مشورے دینے والے صحافیوں اور سکرپٹ رائٹرز نے یہ باور کرایا تھا کہ نوازشریف کی مقبولیت اور مریم نوازکی متحرک شخصیت ملکر وہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوں گے جو شہباز شریف برپا نہ کرسکے۔ بینظیر بھٹو جب ضیاء الحق کے زمانے میں وطن واپس آئیں تو لاہور کی سڑکوں پر ایک طوفانی جلوس کی قیادت کرنے کے بعد انہوں نے پارٹی کے ان انقلاب پرست انکلوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا شروع کیا جن کا انقلاب پاک ٹی ہاؤس کی محفلوں اور سیاسی بیٹھکوں میں شروع ہو کر وہیں ختم ہوتا تھا۔ ایک تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی ہونے کے ناطے انکل کی حیثیت سے بینظیر بھٹو کی پالیسیوں کی تراش خراش اپنا حق سمجھتے تھے دوسرے یہ کہ وہ اس زعم کا شکار تھے کہ تاریخ کا سارا فہم اور شعور انہی کی جیب میں ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز انقلاب فرانس، میگنا کارٹا، لاطینی امریکہ اور انقلاب روس جیسے افسانوں کی بجائے اپنی سیاست کو جرنیلوں، ججوں اور جاگیرداروں کی مثلث کے حامل زمینی حالات اور حقائق کی پٹڑی پر استوار کیا۔ وقت نے اس عملیت پسندی کو ہی کامیاب قرار دیا۔ مریم نوازشریف بینظیر بھٹو کی پارٹی کے قریب تو ہیں مگر بینظیر بھٹو کی اس عملیت پسندی سے کوسوں دور ہیں۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟