3 28

کورونا وائرس، انتظام اور اعصاب کا امتحان

تین ماہ قبل چین میں نمودار ہونے والے کورونا وائرس نے ایک عالمی غارت گر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ چین میں اس وائرس کی آمد نے یکایک خوف اور دہشت کی فضاء قائم کر دی۔ یہ وائرس سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر نظام تنفس اور نظام ہضم کو تباہ کر دیتا ہے۔ چین میں اس وائرس کے باعث جہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں وہیں بہت بڑی تعداد صحت یاب ہونے والوں کی بھی ہے۔ اس وقت تک دنیا بھر میں اس مرض کا شکار افراد کی تعداد چوراسی ہزار بتائی جاتی ہے جن میں مرنے والوں کی تعداد اٹھائیس سو ہے۔ اموات کا شکار ہونے والوں میں اکثریت قوت مدافعت سے محروم بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ چین نے اس وبائی مرض سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی نافذ کی ہے اور راتوں رات کرونا کے مریضوں کیلئے خصوصی ہسپتال تعمیر کئے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے ملکوں نے چین میں زیرتعلیم طلبہ اور کارکنوں کو ہنگامی بنیادوں پر چین سے نکال لیا۔ کورونا وائرس کے باعث متاثر ہونے والوں میں چند پاکستانی طلبہ بھی شامل تھے۔ پاکستانی طلبہ کو چین میں محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا گیا اور متاثرہ مریضوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ کورونا وائرس کا ظہور چین میں ہوا اور اب اس سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا اور ایران شامل ہیں۔ وائرس کے ظہور اور پھیلاؤ کی وجوہات کے بارے میں ”جتنے منہ اتنی باتیں” کا محاورہ صادق آتا ہے مگر حقیقت ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ ایک رائے ہے کہ کتے بلیوں اور چمگادڑوں سمیت حشرات الارض کو کھانے سے اس وائرس نے جنم لیا ہے جس پر چین کی طرف سے کہا گیا کہ یہ خوراک تو صدیوں سے چینی ثقافت کا حصہ ہے ایسا نہیں کہ چند برس سے چین میں یہ کام شروع ہوا ہو۔ ایک رائے میں اسے کسی مخالف ملک کا حیاتیاتی حملہ بھی کہا گیا اور ایسا کہنے والوں کا روئے سخن امریکہ کی جانب ہوتا ہے کیونکہ چین اور امریکہ کے درمیان دفاعی اور تجارتی جنگ زوروں پر ہے اور دونوں عالمی میدان میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مگن ہیں۔ یہ رائے ہر گزرتے دن کیساتھ تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ خود چین کی طرف سے غیرسرکاری طور پر جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں ان میں نقشِ قدم امریکہ تک جاتا ہے۔ گویا کہ امریکہ اور چین کی مسابقت نے اب اس انداز کی انتہائی شکل اختیار کر لی ہے۔ چین نے جس خاموشی کیساتھ مختصر عرصے میں امریکہ کو اقتصادی میدان میں چیلنج کیا ہے وہ بلاشبہ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ امریکہ ہر ممکن انداز سے اس کا توڑ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ چین کے اقتصادی اُبھار نے اس کیلئے دفاعی اور سیاسی کامیابیوں کے نئے در وا کئے ہیں اور یوں امریکہ جہاں اقتصادی میدان میں چین پر ضرب لگانے کیلئے بے چین ہوتا ہے وہیں چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تدابیر بھی ہمہ وقت کرتا رہتا ہے۔ امریکہ چین مخالف ملکوں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کیساتھ ملکر ایک حصار تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جنوبی چین کے جزیروں پر دونوں ملک آمنے سامنے کھڑے ہیں اور سی پیک چین کے دفاعی اور اقتصادی گھیرے کی کوشش کو ناکام بنانے کا باعث ہے اسی لئے امریکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے درپے رہا ہے اور اس منصوبے کو طاقت سے روکنے کیلئے برسوں سے کوششیں کئے جارہا ہے، گوکہ اب یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرچکا ہے مگر امریکہ کو اب بھی امید ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر یا مختلف ترغیبات کے ذریعے اس منصوبے کو بے اثر کر سکتا ہے۔امریکہ جنوبی ایشیائی ملکوں میں چین کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والی سیاسی قوتوں کو پیچھے دھکیل کر اپنے قریبی لوگوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ مخاصمت کے اس ماحول میں حیاتیاتی حملے کی تھیوری زور پکڑ رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ چین کسی مرحلے پر کھل کر سرکاری سطح پر یہ ماجرا بیان کردے۔ کورونا وائرس اب چین سے نکل کر ایران اور دوسرے ملکوں میں پہنچ گیا ہے اور ایران کے راستے پاکستان میں بھی داخل ہوگیا ہے، گوکہ ابھی متاثرین کی تعداد تین ہے مگر خطرے کی گھنٹی بج اُٹھی ہے۔ کرونا وائرس کے باعث ایران اور عراق میں زائرین کے داخلے پر عارضی طور پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ سعودی حکومت نے بھی حفاظتی تدبیر کے تحت عمرے پر عارضی طور پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان نے ایران سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور باہر سے آنے والوں کی سکریننگ کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ہمارے پاس عام امراض کیلئے وسائل کم ہیں اور اگر خدانخواستہ کسی غفلت کے باعث یہ مرض یہاں پھیل گیا تو ہمارا ناکارہ سسٹم اس چیلنج سے عہدہ برا نہیں ہو سکے گا۔ اس سے پہلے ہی حکومتوں اور متعلقہ اتھارٹیز کو کرونا وائرس کے مقابلے کا بندوبست کرنا چاہئے۔ اچھا تو یہ ہے کہ اس مرض کو پاکستان میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے اور اگر ایسی کوئی صورت ہوتی ہے تو پھر مقابلے کی تیاری بھی پوری قوت سے ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے افواہیں پھیلا کر خوف ودہشت پیدا کرنے والوں پر بھی اس حوالے سے کڑی نظر رکھنی چاہئے۔ ایسے لوگوں کا مقصد معاشرے میں بے چینی خوف اور ہیجان پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ عوام کو اس معاملے میں مضبوط اعصابی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بلاوجہ کسی خوف کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ حکومتوں کو بھی میڈیا کے ذریعے عوام کو حفاظتی تدابیر کیساتھ ساتھ حواس پر قابو رکھنے کی تلقین کرتے رہنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''