5 274

تہذیب کا زوال

مادہ پرستی کا دور دورہ ہے، لوگوں کی اکثریت لوٹ کھسوٹ کے چکر میں ہے، بس اپنے اپنے دائرۂ اختیار کی بات ہے جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ہاتھ مارتا ہے۔ یقینا ہم اپنی اقدار فراموش کرچکے ہیں، ایک زمانہ تھا جب معاشرے میں موجود بدمعاشوں کے بھی اپنے قاعدے قوانین ہوتے تھے، وہ بھی نیک وبد میں تمیز روا رکھتے تھے، اپنے علاقے کے بچوں بچیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے، اپنے محلے کے غریب لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے، اب تو اخبار کھول کر دیکھئے تو اس طرح کی دو چار خبریں ضرور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ موٹر سائیکل سوار بھرے بازار میںخاتون سے پرس چھین کر فرار ہوگیا۔ دن دھاڑے گھروں میں داخل ہوکر لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ اب تو عورتیں بھی اس حوالے سے میدان عمل میں کود پڑی ہیں، یہ ٹولیوں کی صورت میں مختلف گلی محلوں میں پھرتی ہیں، کسی ایک گھر کو واردات کی غرض سے تاڑ لیتی ہیں اور پھر موقع ملتے ہی باقاعدہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوتی ہیں اور پھر بڑی دیدۂ دلیری سے واردات کرکے فرار ہوجاتی ہیں۔ اب یہ خبر بڑی عام ہو گئی ہے کہ ڈاکوؤں نے خاتون کو اس کے پرس اور نقدی سے محروم کردیا ۔جہالت کی انتہا یہ ہے کہ اگر کسی جگہ رشتے کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو لڑکی کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا جاتا ہے۔ چوری چکاری، لوٹ مار کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں، کبھی کبھی تو یہ خیال آتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ ہم اتنے ذلیل ہوگئے، ہمارے اخلاق تباہ ہوگئے، ہم اخلاقی طور پر کتنے گر چکے ہیں، خواتین کے کالج اور سکولوں کے سامنے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ ان کیلئے راہ چلتی خواتین پر آوازے کسنا ان کی بے عزتی کرنا بڑی معمولی بات ہے حالانکہ یہ وہی نوجوان ہیں جن کے اپنے گھروں میں مائیں بہنیں موجود ہوتی ہیں لیکن اس کے باجود انہیں خواتین کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ کل ہمیں کراچی سے آئی ہوئی ایک رشتہ دار خاتون یہ واقعہ سنا رہی تھیں کہ ایک مرتبہ وہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے کلینک میں موجود تھیں کہ اچانک تین نوجوان لڑکے ڈاکٹر کے کلینک میں داخل ہوگئے، اس وقت خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کلینک میں موجود تھی، سب کا یہی خیال تھا کہ شاید یہ کسی مریضہ کیساتھ آئے ہوں گے لیکن انہوں نے اچانک پستول نکال لئے اور خواتین سے کہا کہ خاموشی سے اپنے پرس اور سیل فون ان کے حوالے کردیں۔ سب کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے، کلینک میں موجود ملازمین بھی خوف کے مارے اپنی جگہ پر ساکت ہوگئے، اس لئے خواتین کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی اور انہوں نے خاموشی سے اپنے سیل فون اور پرس ڈاکوؤں کے حوالے کر دئیے لیکن اس وقت خواتین کو بڑا دکھ ہوا اور ان کی چیخیں نکل گئیں جب ڈاکوؤں نے ان کی کلائیوں سے سونے کی چوڑیاں زبردستی اُتارنا شروع کر دیں۔ اسی طرح ان کے گلے میں پڑے ہوئے زیورات نوچنے کھسوٹنے لگے، وہ خاتون کہتی ہیں کہ جب ڈاکو یہ ظلم کرنے کے بعد چلے گئے تو خواتین کافی دیر تک رو رو کر یہی کہتی رہیں کہ ہم نے انہیں خود اپنے سیل فون اور پرس دے دئیے تھے ان کے ہاتھوں میں پستول تھے، ہم کیا کرسکتی تھیں، اگر وہ ہم سے زیورات بھی مانگ لیتے تو ہم انہیں دے دیتیں لیکن اس طرح ہماری بے عزتی کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آخر یہ بھی کسی ماں کے بیٹے ہیں کسی بہن کے بھائی ہیں، ان بچوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اپنی ماؤں بہنوں کے تقدس کو بھی بھول گئے، ان کی نگاہوں میں ان پاکیزہ رشتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی؟ نفسانفسی کے اس دور میں اب کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے، کسی کیساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جب معاشرے پر بگاڑ آتا ہے تو سب سے پہلے سچائی شہید ہوتی ہے، اقدار تباہ ہوتی ہیں، مادہ پرستی کا دور دورہ ہوتا ہے، اخلاقیات کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا، بھائی بھائی کا گلہ کاٹنے لگتا ہے، انسانی خون ارزاں ہوجاتا ہے، یوں کہئے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہوتی ہے۔ لوگوں کے دلوں سے خوف خدا ختم ہوجاتا ہے، نفسانفسی کا عالم ہوتا ہے خودغرضی عروج پر ہوتی ہے، لوگوں کی نگاہوں میں اہمیت صرف اور صرف پیسے کی ہوتی ہے، دوسرے کا گھر تباہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے بس ہمیں پیسہ ملتا رہے۔ آج ہر چیز میں ملاوٹ ہے، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کی وجہ سے لوگوں میں خطرناک قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر ہے، بازاروں میں ہر قسم کی مضرصحت اشیاء بک رہی ہیں، کسی کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی خوف نہیں ہے، یہ سب ملی بھگت کے شاخسانے ہیں۔ ہمیں تو ہمارے دین میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ دھوکا دینے والا، ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے لیکن آج ہر چیز میں ملاوٹ کی جارہی ہے، سب بددیانت ہوچکے ہیں، سب کے نزدیک زندگی کا مقصد بینک بیلنس بڑھانا رہ گیا ہے، شاید اسی کو تہذیب کا زوال کہتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج تو باقی ہیں لیکن کردار ناپید ہوچکا ہے ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب برے لوگوں کو بھی اچھی اقدار کا پاس ہوا کرتا تھا وہ بھی خواتین کا احترام کیا کرتے تھے مگر اب وہ سب باتیں کہانیاں ہو گئی ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟