الیکٹرانک کرائمز کا ترمیمی آرڈیننس

وفاقی کابینہ نے الیکٹرانک کرائم کو روکنے کیلئے قانون 2016 ء میں آرڈریننس کے ذریعے ترامیم لانے کی منظوری دی ہے۔ آرڈیننس کے تحت فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید کرنے والوں کو پانچ سال تک قید کی سزا دینے کی تجویز دی پیش کی گئی ہے، صدر مملکت نے آرڈیننس پر دستخط کر دیئے ہیں، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے کابینہ کو بھیجی جانے والی سمری میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 25(1)کے تحت دستور پاکستان شہریوں کی برابری اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے تاہم مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ تیزی سے بدلتی صورتحال میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جو رائے عامہ اور سماجی رویے پر اثر انداز ہو رہا ہے سمری میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ اس وقت پارلیمنٹ کا سیشن نہیں ہے اس لئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 ء میں ترامیم کی جائیں۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تیار کردہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کی سمری کے اکثر نکات پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر مخالفین کیلئے نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی تاہم الیکٹرانک کرائمز کو روکنے کیلئے ضابطہ اخلاق کا ہونا بہت ضروری ہے یوں دیکھا جائے تو حکومت نے درست کام کیلئے قانون سازی کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر فیصلہ کرنے کی بجائے آرڈیننس کا سہارا لیا ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں، اپوزیشن جماعتیں الزام عائد کرتی ہیں کہ آرڈیننس کے ذریعے نظام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس الزام میں کافی حد تک صداقت بھی ہے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ تین برسوں میں 73 سے زائد صدارتی آرڈیننس لا چکی ہے اگر حکومت اصلاح احوال کی دعویدار ہے اور اس کیلئے کوشاں بھی ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ ایوان کے اندر بل پیش کیا جاتا جس پر اراکین کی بحث ہوتی اور وسیع تر مفاد میں قانون سازی کی جاتی جو آئینی طریقہ کار بھی ہے، مگر تحریک انصاف کی حکومت نے ٹھوس منصوبہ بندی کی بجائے وقتی بندوست کیا کیونکہ آرڈیننس کی مدت ایک سو بیس دن ہے جس ضرورت پڑنے پر مزید ایک سو بیس دن کی توسیع کی جا سکتی ہے۔
مملکت کے نظام کیلئے آرڈیننس کو مستحسن نہیں سمجھا جاتا، آرڈیننس مجبوری میں لایا جاتا ہے یعنی جب ملک نازک حالات سے گزر رہا ہو اور حکومت سمجھتی ہو کہ اگر پارلیمنٹ کا سیشن بلایا گیا تو تاخیر ہو جائے گی جس سے ملک کا نقصان ہو سکتا ہے، جب حالات سازگار ہوں تو آرڈیننس سے کام چلانے کی بجائے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جانا درست طریقہ ہے۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت نے ہر مسئلے کا حل آرڈیننس سے نکال لیا ہے اس حوالے سے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے آرڈ یننس لائی ہے کیونکہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تنقید کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ وزیر قانون کے مطابق جعلی خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون بہت ضرروی ہے، اس لیے اب فیک نیوز پھیلانے والوں کو 3 سال کی جگہ 5 سال سزا ہوگی، یہ جرم قابل ضمانت نہیں ہوگا اور اس میں بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن ہوگی۔
اس آرڈیننس کا غلط استعمال ہونے کے خدشات ہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی الزام عائد کرتی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت انہیں انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے جبکہ حکومتی اراکین ہمیشہ بچ نکلتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت اگر واقعی الیکٹرانک کرائمز کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس کیلئے ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے ماہرین کی ٹیم سفارشات طے کرے کہ کون سی تنقید آزادی اظہار میں آتی ہے اور کون سی تنقید پگڑی اچھالنے کے زمرے میں آتی ہے اس بات کا تعین ہونے کے بعد ہی کارروائی عمل میں لانا مناسب ہوگا۔ الیکٹرانک کرائمز کے اہم پہلو پر توجہ نہ دینے سے مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ وہ پہلو یہ ہے کہ جو لوگ ملک کے اندر ہوتے ہیں انہیں دھر لیا جاتا ہے تاہم ملک سے باہر بیٹھ کر تنقید کرنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی یوں قانون پر پوری طرح سے عمل نہ ہونے کی وجہ سے مخالفین تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مفاہمت کی راہ اختیار کریں، ہم آہنگی کی فضا قائم کریں، غلط روایت قائم کرنے کی بجائے ایسا راستہ اختیار کریں جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔