سرحد پار مذموم منصوبہ بندی

سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ افغان صوبے پکتیکا کے برمل سے ایک عسکریت پسند گروپ کی جانب سے حملے کی منصوبہ بندی کی اطلاعات آئی ہیں۔افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل سے ایک عسکری پسند گروہ کی جانب سے مبینہ طور پر حملے کی منصوبہ بندی کی اطلاعات میں کس حد تک حقیقت ہے اور کس حد تک یہ اطلاعات درست ہیں اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد میں مذکورہ گروہ کو خدانخواستہ کامیابی ملتی ہے یا پھر قبل از وقت اطلاع حاصل کرنے والے ان کا منصوبہ خاک میں ملاتے ہیں یہ سب اپنی جگہ امکانات کی حد تک ہیں البتہ قابل تشویش امر یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر طالبان کی عبوری حکومت کے وعدے اور یقین دہانی کے باوجودافغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے لگی ہے یہ پہلا موقع نہیں بلکہ قبل ازیں بھی افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں نے بین الاقوامی سرحد کے پار ضلع کرم میں پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی تھی ۔اس امر کی اعادے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں سرکاری طور پر یہ کہا جا چکا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے دینے سے روکنے میں ناکام یا عدم دلچسپی کا شکار ہے یہ سارے عوامل جہاں خطے میں دہشت گردی کی ایک اور لہر کا باعث نظر آتے ہیں وہاں پاکستان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے یہ بات تو مسلمہ ہے کہ سرحد پار کے بگڑتے حالات کا ہمیشہ سے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔ طالبان حکومت بھی سابقہ افغان حکومتوں کا تسلسل ثابت ہورہی ہے یہ پالیسی نا خود ان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پاکستان کے پاکستان کی عسکری اور حکومتی عمائدین کو اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے اور اس سلسلے میں حال ہی میں اعلیٰ ترین سطح پر مشاورت بھی ہو چکی ہے اور یقینا لائحہ عمل بھی مرتب ہوا ہوگا۔ اس ضمن میں یقینا بہتر حکمت عملی سامنے آئے گی اور ملک میں دہشت گرد ی کی نئی متوقع لہر اور خطرات سے نمٹنے کے لئے جہاں مستحکم اقدامات نظر آئیں گے وہاں اس امر کا بھی امکان ہے کہ ہمسایہ ممالک کو فرائض پرسختی سے عمل درآمد کا ایک اور سنجیدہ مشورہ بھی دیا جائے تاکہ پاکستان کے سرحدی معاملات اور ہمسایہ ملک سے مداخلت کے حوالے سے ان کو اپنی ذمہ داریوں اور وعدوں کا ادراک ہو اور نتائج کے حوالے سے بھی بخوبی آگاہ ہو سکیں۔جاری صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنے تحفظ کے لئے غیر روایتی اقدامات پر انحصار ناگزیر ہے بہتر ہو گا کہ عبوری حکومت وہ نوبت نہ آنے دے جو دونوں ہمسایہ ممالک کے حق میں بہتر نہ ہو۔
قابل تقلیدامر
دو مسلم لیگی رہنمائوں کی جانب سے آہانت آمیزمہم کی مذمت اور مسلم لیگ نون کے ایک رہنما کی جانب سے وفاقی وزیر کے حوالے سے اپنے سابقہ بیان پر معافی کا خواستگار ہونا اندھیرے میں امید کی وہ کرن ہے جس کی روشنی سب کو نظرآنی چاہئے ۔ہم قبل ازیں بھی اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ بہتان طرازی اور الزام تراشی کی سیاست سے گریز کیاجائے اور خواہ مخواہ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ مسلم لیگ کے محولہ دو رہنمائوں کی جانب سے جس کردار و عمل کا مظاہرہ کیاگیا ہے یہ سب کے لئے مشعل راہ ہے توقع کی جانی چاہئے کہ دیگر افراد بھی اسی طرح کا کردار و عمل اختیار کرنے پر توجہ دیں گے اور یہ مذموم سلسلہ نہ صرف یہیں پہ رک جائے گا بلکہ آئندہ اس طرح کے قبیح فعل سے مکمل طور پر ہر جانب سے اجتناب کیا جائے گا۔
بی آر ٹی کا اعزاز اور کرنے کے مزید کام
بی آر ٹی کے لئے گولڈ اسٹنڈرڈ ریٹنگ ایوارڈ یقیناخیبر پختونخوا حکومت ‘ ٹرانس پشاور اور صوبے کے عوام کے لئے اعزاز کی بات ہے ۔بی آر ٹی کی سروس سے عوام کو سفر کی جو سہولت ملی ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہئے البتہ بی آر ٹی کے دیگر منصوبوں کی عدم تکمیل اور خاص طور پرمختلف علاقوں جیسے ریگی للمہ ٹائون شپ ورسک روڈ اورجی ٹی روڈ پر پبی تک روٹ شروع کرنے جیسے عوامل پر حکومت کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے تاکہ جہاں بی آر ٹی کو معقول آمدنی کے مزید ذرائع میسر آئیںوہاں عوام کو بھی اس سے بہتر طور پر استفادے کا موقع ملے۔توقع کی جانی چاہئے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت بی آر ٹی کو ملنے والے اعزاز پر اکتفا نہیں کرے گی بلکہ اس کے ادھورے منصوبوں کی تکمیل پرترجیحی بنیادوں پر توجہ دے گی اور جن نئے روٹس کے اجراء کا بار بار مطالبات کئے جارہے ہیں ان کو پورا کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرے گی تاکہ منصوبہ مکمل ہو اورعوام کی مزیدبڑی اکثریت مستفید ہو ۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟