کیا صرف مہنگائی کا اعتراف کافی ہے؟

سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے 28اشیائے ضروریہ مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں اضافہ 18.09تک پہنچ گیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز منڈی بہائو الدین میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ کوئی شک نہیں کہ مہنگائی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کے حوالے سے اکثراپنے بیانات بدلتے رہتے ہیں بعض اوقات وہ مہنگائی کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے بہرحال اب ان کا شک دور ہو گیا ہے اورانہوں نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ مہنگائی ہے اس لئے یہی سوچ سوچ کر غلطان ہو جاتا ہوںکہ عوام کے لئے کیا کروں۔وزیر اعظم عمران خان کے اگرماضی اور اقتدار میںآنے کے ابتدائی دنوںکے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو وزیر اعظم ابتدائی 90دنوں میں معاملات ٹھیک کرنے کے لئے پرعزم تھے ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ قیادت کرپٹ نہ ہو تو بدعنوانی کی بھی روک تھام ممکن ہے وہ یہ بھی دعوے کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے ملکی معاملات ٹھیک کرنے کے لئے بیس سال سے زائد عرصے تیاری اور منصوبہ بندی کی مگراقتدار میں آنے کے بعد ساری تیاریاں اور منصوبہ بندی کسی کام نہ آئی۔ وزیر اعظم مہنگائی کا الزام سپلائی چین کے مسائل پرعائد کرتے ہیںحالانکہ سپلائی چین عالمی مسئلہ ضرور ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں کورونا وباء کے باوجود سپلائی چین متاثر نہیں ہوئی بلکہ اس کے اسباب داخلی ہیں ۔ عالمی سطح پر خاص طور پر امریکہ اور یورپی مارکیٹوں میں اسٹوروں کے شیلف ضرور خالی ہو گئے تھے لیکن پاکستان میں اشیائے صرف اور اشیائے خوردنی کی سپلائی میںکسی طور بھی تعطل درپیش نہ ہوا جس کی وجہ اندرون ملک مصنوعات اور خاص طور پر خوردنی اشیاء کی دستیابی تھی۔پاکستان کے عوام کو جہاں ایک جانب خوراک اور توانائی کی مہنگائی کا مسئلہ درپیش ہے وہاں خوش قسمتی سے آبادی کی غالب اکثریت کی خوراک کے بنیادی اجزاء مقامی پیداوار سے پوری ہو جاتی ہے ۔پاکستانی عوام خوراک کی جس مہنگائی کے شکار ہیں اس کے اسباب کو عالمی حالات سے جوڑنے کی بجائے مقای سطح پر ان مسائل کا کھوج لگانا اور ان کے حل پر توجہ دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ ہمارے ہاں خوراک کے طلب اور رسد کے اپنے مسائل ہیںخوراک کی پیداوار کی بے یقینی کا مسئلہ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور تخم کی بروقت اور سستے داموں نایابی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہماری خوراک کی پیداوار پرموسمی حالات اثر انداز ہوتے ہیں اگر موسم موافق رہے تو پیداوار ضرورت سے زائد بھی ہو سکتی ہے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں خوراک کی پیداوار کی محکمے اور اس کا انتظام دیانتدار اور معاملہ فہم افراد کے ہاتھوں میں نہیں اہداف کا تعین اور پیداوار کا تخمینہ باقاعدہ مطالعے اور تحقیق کی بجائے اندازوں پر لگائے جاتے ہیں جس کے باعث یہ اندازے عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں اور ملک میں خوراک کی کسی نہ کسی شے کا بحران سال بھر رہتا ہے ایک اور مسئلہ منصوبہ بندی کے ساتھ اشیاء کا بحران پیدا کرنا بھی ہے جس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر ‘ سبزی ‘ آٹااور خاص طور پر چینی کی نایابی معمول بن جاتی ہے پیداواری سطح پر حکومتی ناکامی منڈی کی سطح پرناقص اقدامات کے باعث اور آڑھتیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کے نرخوں میں عوام کو خود ساختہ اور منصوبہ بند اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔دیکھا جائے تو منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابوپانے میں کامیاب نہیں ہوتی ان حالات میں قیمتوں کو کیونکر اعتدال میں رکھنا ممکن ہو گا۔مہنگائی کے ان داخلی عوامل کے علاوہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کے اثرات کے باعث مہنگائی کی پندرہ روزہ اور ماہوار لہر کا ایک تسلسل جاری ہے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے توانائی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کے علاوہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی شرح میں اضافہ قیمتوں میں اضافے کا ایک اور بنیادی محرک ہے ۔مشکل امر یہ ہے کہ حکومت ٹیکس اور برآمدات سے ریکارڈ آمدنی کے دعوے تو کرتی ہے مگر عوام پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی اور بہتری نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم کا اس ساری صورتحال میں مشوش ہونا فطری امر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اقتدار کے چوتھے برس بھی اگر مسائل پر قابو نہیں پا سکے ہیں اور ماضی ہی کو الزام دیا جارہا ہے تو آخر کب ایسے اقدامات دیکھنے کو ملیں گے جس کا خواب وزیر اعظم نے عوام کو بار بار دکھایا تھا ۔ہمارے تئیں ماضی کو کوسنے کی بجائے اس نکتے پر حکومت کی توجہ مبذول ہونی چاہئے کہ غربت کا خاتمہ نہ سہی اس میں کمی کیسے کی جائے اور مہنگائی پر کیسے قابو پایا جائے ۔وزیر اعظم عمران خان اگر اپنے جلسوں میں ان بنیادی سوالات کو جواب طلب باقی رہنے دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وزیر اعظم کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیںایسے میں ان کے جلسوں میں لوگوں کی کتنی بڑی تعداد بھی شریک ہو جلسے عددی طور پر تو کامیاب نظر آئیں گے لیکن جب فیصلے کے لئے عوام سے رجوع کرنے کا وقت آئے گا تو اصل حقائق اور نتائج مختلف ہوسکتے ہیںلہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان دوسروں کو کوسنے اور ان کو الزام دینے کی بجائے عوام کی تسلی و تشفی کے لئے عملی اقدامات پر توجہ دیںتاکہ محروم اقتدار ہونے کے بعد جب ان کو عوام کی حمایت اور جلسوں کی کامیابی کی ضرورت پڑے تو مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین