فرسٹ کزن میرج اورخطرناک بیماریاں

ہمارے وطن میں کچھ اس طرح کی روایات ہیں اور برسوں سے چل رہی ہیں کہ جسے ہماری خاندانی روایت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جب پوچھو کہ کب و کس نے شروع کی تھی تو پھر آئیں بائیں شائیںکرنے لگتے ہیں۔ انہیں روایات میں سے ایک اپنے ہی خاندان میں شادی کرنا بھی ہے اور کچھ تو اتنے سخت ہیں کہ صرف اپنے ہی بہن بھائی کے بیٹے یا بیٹی سے اپنے بچوں کی شادی کرنے کو بھی روایت کہتے ہیں۔ اس طرح کا کچھ نہ تو ہمارے پیارے مذہب اسلام میں ہے اور نہ ہی مشرقی روایات میںکسی سختی کا ذکر ہوا ہے۔ اسے کزن میرج یا قریبی خاندان کی شادیاں کہتے ہیں اور اسے آج کل اس لئے بھی یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ میں اچھی خاصی تعداد میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ کزن میرج ہی ہے۔ دنیا میں کچھ ایسے مذاہب اور اقوام ہیں کہ جوکزن میرج کو روکنے کے لئے قوانین بھی بناچکی ہیں ۔کچھ میں تو چھ نسلوں تک شادی کے بعد کزن میرج کرنے پر پابندی ہے لیکن دوسری طرف کچھ مذاہب اور معاشروں میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس طرح کی مسلسل شادیوں سے مورثی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے کئی ممالک میں باقاعدہ طورپر کزن میرج پر قانون بن چکا ہے اور چین، فلپین، تائیوان، شمالی و جنوبی کوریا بلکہ امریکہ کی 52 میں سے 24 ریاستوں میں بھی کزن میرج پر باقاعدہ سے پابندی ہے۔
پاکستان میں ستم ظریفی دیکھیں کہ ہمارے معاشرے میں کزن میرج کو نہ صرف اچھا سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے بڑھوتری بھی دی جاتی ہے۔کزن میرج صرف ہمارے مشرق کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دس فیصد لوگ اس روایت کے پاسدار ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہمارے بڑوں کا ماننا ہے کہ اس طرح شادی کرنے سے ہم بہن بھائی کا رشتہ مزید مضبوط ہوگا اور اسی طرح اپنے خاندان میں آنے جانے اور شادی بیاہ، غم خوشی وغیرہ کے مواقع پرآسانی سے انتظام ہوسکتا ہے۔ کزن میرج کو بڑھوتری دینے والوں کے پاس یہ بھی دلیل ہے کہ کزن میرج میں اپنے بھائی بہن کی بیٹی کے ساتھ آپ کا جذبات کا رشتہ مزید مضبوط ہوجاتا ہے، آنے والی لڑکی اپنے سسرال کو اپنا خون ہونے کی وجہ سے زیادہ جذباتی انداز میں اور محبت بھرے جذبے سے دیکھتی ہے ساس، سسر اور نند و دیور کی خدمت کرنے میں اسے کسی قسم کی انا کا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ خوشی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس یکطرفہ نہیں کیونکہ اسی طرح کا محبت بھرا جذبہ سسرالیوں سے بھی ملتا ہے کیونکہ وہ بھی اسے اپنی بہو سے زیادہ بھتیجی اور بھانجی کے رشتے و رتبے پر رکھتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرح کی شادی میں اس طرح کے جذ بات دونوں طرف سے نہیں ہوتے۔
لیکن میری اپنے قارئین سے گزارش ہے کہ جذبات کی بجائے زمینی حقائق کو دیکھیں ، کیونکہ اس طرح جذبات میں بہہ کر مسلسل کزن میرج کرنے والے خاندان جب اس کی وجہ سے ہونے والی طبی خرابیوں اور بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں تو پھر جذبات پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہمیں پہلے اس طرح کی بیماریوں کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھیں مگر اب انٹر نیٹ کے ذریعے یہ معلومات اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں اب سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ اس طرح کی شادی میں درجن بھر مسائل ہیں اور آنے والی نسل میں بیماریاں مضبوط سے مضبوط ہوتی جاتی ہیں۔ طبی دنیا میں اس پر پورے مضامین پڑھے اور سیکھائے جاتے ہیںان میں انتھروپولوجی اور الائینس تھیوری شامل ہیں۔ فرسٹ کزن میرج میں آٹوسومال ریسیو جینیٹک ڈس آرڈر اس ایک قسم کی بیماریوں کی جڑ ہے کہ جب فرسٹ کزن آپس میں شادی کرتے ہیں اور ان کے والدین کی وجہ سے ان دونوں مردوعورت میں ان جراثیم کی موجودگی شادی کے بعد مزید بڑھ جاتی ہے اور یوں ان کے آنے والے بچوں میں مورثی بیماری کے واضح آثار نظر آجاتے ہیں اور اس کی ایک بہت سادہ اور بڑی مثال خون کی بیماریاں یعنی تھیلیسیمیا ہے جس کا ہمارے وطن میں دن دگنی اور رات چگنی اضافہ ہو رہا ہے ۔ اسی طرح آنے والے بچوں میں ذہنی یا جسمانی معذوری بھی فرسٹ کزن میرج کا ہی شاخسانہ ہے اور اس میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اس طرح کے معذور بچے پھر والدین کے لئے عمر بھر کا روگ بن کر رہ جاتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ معذور بچوں کی پیدائش بھی جنیاتی ہوتی ہے کیونکہ اگر کسی خاندان میں کوئی جینیاتی خرابی موجود ہوتو پھر فرسٹ کزن میرج کے بعد اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ آنے والے بچے کسی قسم کی معذوری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح فرسٹ کزن میرج کی وجہ سے ان کے بچے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔ اس طرح کی شادیوں پر باقاعدہ سے کوئی تحقیق ابھی نہیں ہوئی اور اگر ہوجاتی ہے تو جو حقائق سامنے آئیں گے تو وہ بہت ہیبت ناک اور وہشت ناک ہوسکتے ہیں۔ تاہم میرے آج کے کالم کا مقصد آپ کو طبی اصطلاحات بتا کر کسی قسم کا رعب ڈالنا یا الجھن میں ڈالنا نہیں بلکہ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد ہونے کے ناطے اس طرح کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا اور ان سے ممکنہ طور پر بچنے کی صلاح دینا بھی میرا فرض ہے۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور ضرورت پڑی تو آئندہ بھی اس موضوع پر لکھوں گا تاکہ کم از کم میں اپنے قارئین کو اس عذاب سے بچانے میں حتی المقدور کوشش جاری رکھوں۔
٭٭٭

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت