بھارت سے تجارت کی مچلتی خواہشیں

وفاقی وزیرتجارت ٹیکسٹائل پیدوار و سرمایہ کاری رزاق دائود نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے زیراہتمام لاہور میں منعقدہ انجینئرنگ اینڈ ہیلتھ کیئر نمائش کے موقع پر اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک بارپھر بھارت سے فوری تجارت کی وکالت کی ہے۔رزاق دائود کا کہنا تھا تجارت دونوں ملکوں کے لئے سود مند ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزارت تجارت کا موقف یہ ہے کہ بھارت سے تجارت کی جائے میرا بھی یہی موقف ہے کہ تجارت ہونی چاہئے اور اب اسے کھولنا چاہئے۔وزیر تجارت کے اس موقف پر دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدلباسط نے ایک معنی خیز ٹویٹ یوں کیا ہے۔”یہ وزیر اعظم عمران خان کے فرانسیسی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو کی نفی ہے ۔کیا وزیر موصوف تک عمران خان کا موقف نہیں پہنچا یاانہیں اپنے باس کی سوچ سے اختلاف ہے ۔وزیر تجارت کشمیر کو تجارت کے محدب عدسے سے دیکھنا چھوڑ دیں۔کشمیر برائے فروخت نہیں ”۔عبدالباسط کی طرف سے رزاق دائود کے موقف کی فوری گرفت محض کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی رائے جوپاک بھارت تعلقات کے انتہائی کشیدہ دنوں میں دہلی کے صفدر جنگ روڈ پر قائم پاکستانی ہائی کمیشن سے ہندو ذہنیت کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب حریت قیادت کو پاکستانی ہائی کمیشن میں مدعو کیا جاتا تھااور بھارتی انتہا پسند عبدالباسط کے خلاف مظاہرے کرتے تھے ۔ عبدالباسط اپنے مسکت دلائل اور زوردار اندازسے بھارتی ٹی وی چینلز پر جھاگ اُگلتے بھارتی اینکروں کا منہ بند کرتے تھے ۔عبدالباسط کو اس وقت بھی پاکستان کی فیصلہ سازی پر حاوی اسی قسم کی تاجرانہ سوچ کا سامنا تھا جو ان کی زبان بند کرنا چاہتی تھی ۔اسی لئے تاجروں کو حکمران نہ بنانے کا حکم دیا گیا کہ وہ صرف اپنے نفع ونقصان کی عینک سے ریاستی اور حکومتی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں ان کا سار زور عقل پر ہوتا ہے اور دل کے معاملے میں وہ اکثر کورے ہوتے ہیں ۔انسانی زندگی میں بہت سے معاملات کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور یہاں دنیا میں مروج سود زیاں کے باٹ اور پیمانے متروک ہوتے ہیں ۔بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جو عقل اور دل کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر وجہِ نرع ہے ۔یہ تنازعہ ٹھنڈا اور غیر فعال یا فریز بھی نہیں کہ اسے فراموش کردیا جائے ۔یہ ایک زندہ متحرک اور لاوہ اُگلتا ہو ا مسئلہ ہے ۔کشمیری عوام آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے انسانی تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔بھارت کشمیریوں کی خواہشات کو کچلنے کے لئے ان کی نسلوں کو مٹا رہا ہے جو مٹنے سے بچ گئے ہیں ان کی تہذیب ،ثقافت مذہبی تشخص ،آبادی اور روایات تبدیل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ قبرستان اور جیلیں بھر کر بھارتیوں کا جی نہیں بھرا اور وہ کشمیر یوں کا وجود حرف غلط کی طرح مٹارہا ہے ۔ایسے میں پاکستان کشمیریوں کی وکالت کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے ہے ۔اگر کسی مقدمے کا وکیل ہی مخالف پارٹی کے ساتھ مل کر رنگ رلیاں منانے لگے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے ۔عمران خان کے فرانسیسی صحافی کو دئیے گئے جس انٹرویو کا حوالہ عبدالباسط نے اپنے ٹویٹ میں دیا ہے اس میں وہ دوٹوک انداز میں کہہ گئے ہیں کہ پانچ اگست کا قدم واپس لئے بغیر بھارت سے کوئی تعلق ممکن نہیں ۔بہتر تعلقات کے آغاز کے لئے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔عمران خان ایک مثالیت پسند شخصیت کے طور پر اس موقف کا بار بار اظہا کررہے ہیں ۔صر ف کشمیر کے لئے ہی نہیں وہ بین الاقوامی میڈیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔انہوںنے ایک بار کہا تھا کہ میرا دل نہیں مانتا کہ فلسطینی اس حال میں ہوں اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے ۔یہ وہ وقت تھا جب ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی قیاس آرائیاں زور پکڑ چکی تھیں ۔اب ہر دور کے حکمرانوں کے گرد گھیرا ڈالنے والے سرمایہ دار مافیا کو تو عمران خان کا یہ اصولی اور دوٹوک موقف ایک آنکھ نہیں بھاتا ہوگا۔یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی میں پہلے میاں نوازشریف کو حقیقت پسند بن کر بھارت کو حدود وقیود سے آزاد تجارت کے راستے پر ڈال چکے ہیں اور بعدازاں جنرل پرویز مشرف کو آگرہ سے نہروالی حویلی تک گھسیٹ لانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں ۔کشمیر کو نظر انداز کرکے تجارت کو فروغ دینے کی ان راہوں میں دونوں حکمرانوں کے اقتدار کا سورج وقت سے پہلے ہی غروب ہوتا رہا ہے ۔چند دن قبل پاکستان کے ایک بڑے بزنس تائیکون میاں منشا ء نے بھی بہت کھل کر بھارت کے ساتھ تجارت کی وکالت کی تھی ۔زراق دائود کی طرح میاں منشا ء کی خواہش میں کشمیر نامی دیرینہ اور انسانی زندگیوں کے لئے اہم مسئلے کا ذکر ہی غائب تھا۔کشمیریوں کی لاشوں پر تجارتی ٹرکوں کی قطاریں سجانے کی مچلتی خواہشات کو بے رحمی اور سفاکی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟