ذاتی گھر کا خواب اور دھوکہ دہی

کسی کو خیال آیا اور جس موضوع پر میں گزشتہ کئی سال سے لکھ لکھ کر توجہ دلاتا رہا ہوں ‘ اس حوالے سے بالآخر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے ‘ قومی احتساب بیورو کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ پشاور کی سولہ ہائوسنگ سوسائٹیز کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ‘ کرپشن ‘ دھوکہ دہی ‘ بددیانتی ‘ خیانت ‘ مجرمانہ سے مبینہ طور پر شہریوں کو ان کی رقوم سے محروم رکھنے کے الزام میں تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ‘ اور اس سلسلے میں متاثرین کو سولہ ہائوسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے شکایات کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا ہے ‘ نیب کی جانب سے چار مارچ تک کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے ‘ اس صورتحال پر ایبٹ آباد کے ہمارے ایک ہمدم اور اچھے شاعر امتیاز الحق امتیاز کے الفاظ کیا خوبصورت تاثر دے رہے ہیں
حساب درد جگر جب بھی دیکھنا چاہو
ہمارے پاس ہے فہرست پائی پائی کی
کئی ضرورتیں کرنی پڑیں نظر انداز
تمام دن کی مشقت سے جو کمائی کی
اپنا گھر ہر کسی کا خواب ہوتا ہے ‘خواہ وہ دوڈھائی مرلے کا کوارٹر ہی کیوں نہ ہو ‘ جبکہ جن کے پاس وسائل ہوں تو ان کے لئے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے فارم ہائوسز تعمیر کرنا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ تاہم اصل مسئلہ تو کم آمدنی والوں کا ہے جو اپنی ضرورت اور استطاعت کے مطابق تین مرلے سے لیکر دس مرلے تک کے پلاٹ لیکر ان پر سر چھپانے کو گھر بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور محدود یا کم آمدنی والوں کی اسی”کمزوری” سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض فراڈیئے سرگرم ہوتے ہیں ‘ اس ضمن میں متعلقہ اداروں سے اجازت حاصل کئے بنا اخبارات اور آج کل خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایسے اشتہارات وائرل کئے جاتے ہیں ‘ ان اشتہارات میں بڑے بڑے دعوے بھی شامل ہوتے ہیں یعنی ضروریات زندگی (بجلی ‘ گیس وغیرہ) کی فراہمی کے وعدے ‘ مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اور بندے کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب ان نام نہاد کالونیوں میں کوئی پلاٹ خرید لیتا ہے ‘ اور یہ پلاٹ فروخت کرنے والے اپنی چرب زبانی سے خریداروں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ترقیاتی کام بس شروع ہونے والے ہیں ‘ یعنی سڑکیں ‘ گلیاں تعمیر ہونے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے ‘ اسی طرح بجلی اور گیس کی فراہمی کے علاوہ پانی کے لئے ٹیوب ویل وغیرہ بھی زیر غور ہیں ‘ حالانکہ حقیقت کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ‘ اور لوگوں کو گھروں کی تعمیر کے لئے ابتدائی مراحل یعنی نقشہ پاس کرانے کے لئے جب متعلقہ دفتر جانے کی ضرورت آن پڑتی ہے تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ جس مقام پرگھر تعمیر کرنے کی درخواست کی جارہی ہے وہ تو متعلقہ ادارے سے منظور شدہ ہی نہیں ہے ‘ اور اگر بہ فرض محال ایسا ہے بھی تو نہ سرکار نے اس کے لئے سڑکوں وغیرہ کی منصوبہ بندی کی ہے نہ ٹیوب ویلوں کی منظوری دی جا چکی ہے ‘ نہ بجلی کے کھمبے اور گیس فراہمی کے لئے پائپ بچھانے کی منظوری دی گئی ہے ‘ یہ تو خیر پھر بھی تھوڑی بہت حوصلہ ا فزاء صورتحال ہے کہ کم از کم رہائشی منصوبہ بندی کی اجازت تو دی گئی ہوتی ہے ۔ بعض کالونیوں کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہوتا ‘ اور ایسی کالونیاں ”ہوا میں معلق قلعوں” کی مانند ہوتی ہیں جن میں پلاٹ فروخت کرکے لوگوں کی حق حلال کی کمائی پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے ‘ اور یہی وہ اصل مسئلہ ہے جس کی شکایات اب بالآخر نیب کو بھی پہنچ گئی ہیں ‘ یعنی اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی تعداد سولہ کے قریب ہے ‘ ان نام نہاد کالونیوں کے ذریعے لوگوں کو کس بے دردی سے لوٹا گیا ہے اس کی تفصیل تو سامنے نہیں آئی مگر نیب کا اس فراڈ کا نوٹس لینے پر شکریہ تو ادا کرنا بنتا ہے ۔
ہم اہل درد جوئے میں لگی ایسی رقم ہیں
جسے دانستہ ہر بازی میں ہارا جارہا ہے
جن سولہ فراڈ کالونیوں کے حوالے سے نیب نے تحقیقات شروع کی ہیں وہ اپنی جگہ مگر اس تناظر میں اچھی ساکھ کے اداروں کی بھی کوئی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہئے ‘ اور اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سولہ ہائوسنگ سوسائٹیز کے نام سامنے لائے جائیں ‘ تاکہ جو نیک نام ادارے سرگرم ہیں ان پر کوئی آنچ نہ آئے ‘ اس حوالے سے یہ گزارش ہے کہ متعلقہ ادارے جن سے ہائوسنگ کالونیوں کے اجازت نامے لئے جاتے ہیں ‘ ان کے اشتہارات میں متعلقہ سرکاری محکمے یا ادارے این اوسی جاری کریں تو ان اشتہارات میں ان اجازت ناموں کے فائل نمبر کا اندراج ضروری قرار دے ‘ اس سے ایک تو عوام کو یہ تسلی ہو گی کہ وہ جن سوسائٹیز میں اپنی پس انداز کی ہوئی حق حلال کی کمائی لگا رہے ہیں وہ واقعی آگے چل کر ان کے ساتھ کوئی فراڈ نہیں کریں گی ‘ دوسرے یہ کہ ایسی رجسٹرڈ کمپنیوں کی جانب سے ترقیاتی کاموں یعنی سڑکوں کی تعمیر ‘ پانی کی فراہمی ‘ گیس بجلی کے لئے ضروری اقدامات پرمتعلقہ سرکاری ادارے بھی نظر رکھنے کے پابند ہوں گے اور یوں بنیادی ضروریات کی فراہمی میں تاخیر ہوسکے گی نہ کوئی فراڈ سامنے آئے گا۔ نیب تک رسائی سے پہلے ہی اگر نئی کالونیوں کی اجازت کے لئے ا شتہارات دینے کو متعلقہ سرکاری محکموں کی تحریری اجازت سے مشروط کی جائے تو آئندہ کوئی ان کے جھانسے میں آکر اپنی محنت کی کمائی سے محروم نہیں ہو سکے گا۔
دنیا نے مجھ کومال غنیمت سمجھ لیا
جتنا میں جس کے ہاتھ لگا لے اڑا مجھے

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی