عوامی جمہوریت پر مبنی نظام کیسے ممکن ہوگا؟

بہت سارے دوستوں(سیاسی کارکنوں ، اہل دانش اور صحافیوں)کا خیال ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر طبقاتی نظام مسلط رہا اور ہے پھر کیوں اس نظام کے شراکت داروں میں سے ایک طبقے کی حمایت کرتے ہو؟ اپنے ان دوستوں کی بات سے کسی حد تک متفق ہوں لیکن دو باتیں مدنظر رکھنا ہوں گی اولا یہ کہ جمہوریت غیرطبقاتی نظام نہیں ہے اس میں سارے طبقات شریک ہوتے ہیں ۔ اس بات سے بھی متفق ہوں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتخابی عمل کو اس قدر مہنگا کردیا گیا کہ اب کونسلر کا الیکشن بھی پیسے کی طاقت سے ہی لڑا جاسکتاہے۔ دو ساعتوں کے لئے سیاسی نظام کے مختلف حصوں کے انتخابی عمل کو ایک طرف اٹھارکھئے آپ ملک میں قانون کا چہرہ سمجھی جانے والی بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابی عمل کو دیکھ لیجئے کیسے پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتاہے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت ا ور سیکرٹری شپ کے انتخابی اخراجات کسی بھی طرح صوبائی اسمبلی کے امیدوار سے کم نہیں اسی طرح صوبائی بار کونسلوں اور پاکستان بار کونسل کے ارکان کی انتخابی مہم کا بغور جائزہ لیجئے۔ دوسروں کو چھوڑیے، خود اہل صحافت کے پریس کلبوں کے انتخابات کا مشاہدہ کیجئے۔ اب اس بات پر غور کیجئے کہ مالی طور پر آسودہ طبقات سیاسی عمل پر قابض کیسے ہوئے؟ اس کی چند وجوہات ہیں اولا یہ کہ ہمارے یہاں ہمیشہ سے اس سوچ کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ سیاست ارے چھوڑیئے یہ تو بڑے لوگوں کا کام ہے۔ یہ غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو1985 والے غیرجماعتی قومی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ قبل ازیں دو غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے فوجی حکومت جمہوریت دشمن سیاسی پنیری لگاچکی تھی اسی پنیری میں لوگ بالائی سطح پر یعنی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے ان میں سے مشکل سے چند لوگ آگے چل کر خود کو جمہوری عمل کا حصہ بناسکے۔ سیاسی عمل میں تربیت یافتہ کارکنوں کی عدم موجودگی کی ایک اور وجہ طلبا یونینوں کا نہ ہوناہے۔ جنرل ضیا الحق کے دورمیں طلبا یوننوں پر پابندی لگی تھی۔ 2008میں سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں طلبا یونینوں پر سے پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے لئے قانون سازی نہ ہوسکی۔ اب ہفتہ بھر قبل سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے طلبا یونینوں کی بحالی کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔ جمہوری عمل میں طبقاتی بالادستی کی ایک اور وجہ مارشل لائی حکومتیں ہیں۔ گیارہ برس جنرل ضیا الحق اور10برس جنرل پرویزمشرف اقتدار میں رہے۔ تقریباً 21برسوں کے دوران کے معاملات کا تجزیہ کیجئے۔ ایک تیسری بات جسے عمومی طور پر ہم نظرانداز کرتے ہیں وہ یہ کہ اس ملک میں جب بھی آئین سے ماورا کوئی اقدام ہوتاہے تو اس کی تحسین شروع ہوجاتی ہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت جسے ہم طبقاتی جمہوریت کہتے ہیں جب آتی ہے تو اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوجاتاہے۔
مکرر عرض ہے عوامی جمہوریت کا راستہ طبقاتی جمہوریت سے ہی نکل سکتا ہے ۔ سیاسی عمل اور نظام پر بڑے طبقات کی گرفت پر شاکی لوگوں کو آگے بڑھ کر سیاسی عمل کا حصہ بننا ہوگا۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے اس نظام میں جو موجود ہے توازن لانے کا۔ یہ بھی یاد رکھئے کم از کم مجھ ایسے طالب علم اپنے مطالعہ کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ غیرمتوازن نظام کوئی بھی ہو بالآخر اس کی عمارت زمین بوس ہوتی ہے ۔ہر وہ نظام جو مذاہب کی تشکیلِ ریاست کی خواہشوں سے کشید کیا گیا ہو یا انسانی نظریہ سازی سے جب بھی عدم توازن کا شکارہوا تاریخ کا حصہ ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذاہب کی ریاستی تشکیل کی خواہش سے عبارت ہو یا انسانی نظریہ سازی سے دونوں نے ابتدا میں ایک ایسے نظام کے خواب دکھائے جس میں سماجی مساوات کے قیام کے ساتھ طبقاتی خلیج کو کم سے کم کرنے کی نوید دی گئی مگر عملی طور پر کیا ہوا۔ ہر دو طرح کے نظاموں نے نئے استحصالی طبقات کو جنم دیا۔ ایک ایسا نظام جس میں سماجی مساوات اور انصاف کا دور دورہ ہو تبھی ممکن ہے جب خود اس معاشرے کے تمام طبقات نظام کے قیام اور اسے آگے بڑھانے میں ذاتی دلچسپی لیں۔ ہمارے یہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست کو کاروبار بنایا گیا۔ مذہبی(فرقہ وارانہ) شدت پسندی کو ہوا دی گئی۔ ایک خاص طبقے کو کعبہ کی کڑیوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ احتساب کا مطلب صرف سیاسی عمل میں شریک لوگوں کا احتساب ہے، دیگر طبقات کا احتساب کون کرے گا؟ جواب ملتا ہے ان محکموں کے اندر احتساب کا اپنا نظام موجود ہے۔ اس اپنے نظامِ احتساب کی برکات گنوانا شروع کردوں توہین مقدسات کے ساتھ غداری کا فتوی تو کہیں نہیں گیا، کم از کم میں یہ سمجھتاہوں کہ طبقاتی نظام میں سے متوازن عوامی جمہوریت کا راستہ نکال کر اور منزل پر پہنچ کر ہی اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے پھر احتساب کا ایسا نظام بن سکتاہے جس میں سب کی جوابدہی ممکن ہو۔ ادارہ جاتی احتساب کے فراڈ کا خاتمہ اسی صورت ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابی عمل کو کاروبار بنانے کی حوصلہ شکنی سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو کرنا ہوگی۔ طریقہ کار وضع کیاجاسکتاہے کہ معاشرے کے عام فرد کو اگر کوئی سیاسی جماعت اس کی اہلیت پر نامزد کرتی ہے تو وہ صرف اس بات سے مار نہ کھائے کہ اس کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ یہ بھی عرض کردوں کہ پارلیمانی جمہوریت 1973 کے دستور کی روح کے مطابق نظام ہے افراد کی کجیوں اور دوسرے معاملات کا ملبہ نظام پر اس لئے پڑتا ہے کہ اصلاح احوال کی فوری صورت کوئی نہیں ہوتی۔ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک بار پھر دو کام کریں، کارکن سازی اور جماعتوں کے اندر نظام احتساب کو یقینی بنائیں اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں البتہ ہمیں سمجھناہوگا کہ جب ہم دستیاب جمہوری نظام کو کوستے ہیں تو اصل میں ہم ان قوتوں کے منصوبے کو کامیاب کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں جو جمہوریت کو اپنی بالادستی اور لوٹ مار کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں وہ کون ہیں ایک نگاہ چاراور دوڑایئے، خود ہی سمجھ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت