طلبہ یونین اور ملکی سیاست

کہتے ہیں سردی کا موسم بہت رومان پرور ہوتا ہے، سورج کی شدت اور آگ کی گرمی بھی مزہ دیتی ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں اور خشک سالی نے مزہ ہی کرکرا کر رکھا ہے، تاہم کچھ لوگ ہیں جو ہر موسم میں بھی بہار تلاش کرنے کا ہنر جانتے ہیں ہمارے ہر دم متحرک، دوست لطیف شاہ ان میں سے ایک ہیں، دلوں میں اپنے نظریات سے محبت تھی مگر دل اور زبان دونوں صاف تھے، جو دل میں تھا وہی زبان پر بھی تھا، جو سبز تھا وہ تنہائی میں بھی سبز تھا اور جو سرخ تھا وہ اندھیرے اجالے میں بھی سرخ تھا، آج کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کے ساتھ ہے؟ روایات بدل گئی ہیں، وہ گلیاں اور ان کے تھڑے جہاں سیاسی محفل سجا کرتی تھی یہ سب کچھ تجاوزات کی زد میں ہیں، وٹس ایپ کی دنیا میں خاموشی زیادہ چھا گئی ہے، میل ملاپ تقریباً ختم ہوچکا ہے، تعزیت ہو یا شادی کی مبارک باد، سب کچھ وٹس ایپ نے اپنی مٹھی میں لے لیا ہے، اس ماحول میں پرانے دوستوں کی محفل جب سجی تو سب ایک ہی میز پر تھے۔ بقول شاعر
گناہ کا بوجھ گردن پہ جو اٹھا کر ہم چلے
خدا کے آگے خجالت سے منہ چھپا کر چلے
آج کوئی سبز ہے اور نہ کوئی سرخ، پورا نظام ہی بکھر کر رہ گیا ہے پیسے نے سب کچھ توڑ کر رکھ دیا اب جو کچھ بھی ہے پیسہ ہے یہ ایسی تبدیلی ہے جس نے سکون کی منڈی خالی کردی ہے، اور خوشامد کی فصل اس قدر زیادہ جھاڑ دے رہی ہے کہ ہر خوشامدی کو اس کی اوقات سے زیادہ مل گیا ہے لہٰذا تھڑوں اور ڈھابوں کی محفلوں کا زمانہ لد گیا، اب گفتار کے غازی رہ گئے ہیں سر بکف مجاہد ٹارگٹ کرکے سیاسی جماعتوں سے الگ کیے جارہے ہیں، میرا تعلق پاکستان میں طلبہ کی اس نسل سے ہے جس کا تعلیمی دور 1966 سے شروع ہو کر 1985 میں ختم ہو جاتا ہے بیس سال کے اس عرصے کا آغاز اصفانی پبلک اسکول کمیلا مشرقی پاکستان سے ہو کر اختتام راولپنڈی میڈیکل کالج میں ہوتا ہے، 1976 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد کالج میں قدم رکھا اس وقت ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اپنے عروج پر تھی، حکومت نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔
مارچ 1977 میں انتخابات ہوئے، انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا، حکومت کی جانب سے تحریک کو کچلنے کے لیے قوت کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا، دونوں جانب کی کشیدگی کے نتیجے میں سیکڑوں قیمتی جانیں دھرتی اور مذہب کے نام پر مٹ گئیں، تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے قیمتی تعلیمی سال کا ضیاع ہوا، ملکی معیشت بری طرع سے متاثر ہوئی، غرض ہر شعبہ زندگی پراس کے اثرات نمایاں تھے، اس سیاسی کشیدگی کا اختتام ملک میں ایک طویل مارشل لا کے نفاذ سے ہوا جس کی مدت گیارہ سال تک رہی جس کے بعد کے اثرات پر پھر کبھی بحث کریں گے آج صرف طلبہ یونین اور ملکی سیاست پر ہی بات ہوگی، جس دور کا میں نے ذکر کیا ہے اس دور میں طلبہ یونین کے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے 1984 میں یونینوں پر پابندی عائد ہوئی اور طلبہ تنظیموں کو کام سے روک دیا گیا۔
اْس دور میں طلبہ یونین کے جہاں بے شمار مثبت پہلو تھے وہاں چند منفی اثرات بھی دیکھنے میں آئے، مثبت سرگرمیوں میں طلبہ کی ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی جس میں تعلیمی، تفریحی، تقریری مقابلے، کھیلوں کی سرگرمیاں، وغیرہ دیکھنے کو ملیں، میں یہاں اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ اْس دور میں ملکی سیاسی کشیدگی کا اثر طلبہ تنظیموں کے ذریعے تعلیمی اداروں تک بھی پہنچ گیا تھا اور اس طرح چند یونیورسٹیاں اور بہت سے کالجز میں پیشہ ور طلب علم طلبہ سیاست کو کنٹرول کرنے لگے، اس طرح ان تعلیمی اداروں میں اسلحے کا استعمال عام ہونے لگا۔
آج میری عمر 60 برس کی ہو چکی ہے میری طلب علمی کا زمانہ گزرے37 سال گزر گئے ہیں اس موضوع پر لکھنے کی وجہ حال ہی میں ایک تقریب میں جانے کا موقع ملا جہاں پر ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی کے راولپنڈی کے مختلف کالجوں کی طلبہ یونینوں کے عہدیدار جن کا تعلق اس دور میں دائیں اور بائیں بازو سے رہا، ان سب کو ایک چھت کے نیچے دیکھ کر میرے اندر کا نوجوان جاگتا ہوا محسوس ہوا اور میں نے ان کی آنکھوں میں ایک ایسی حسرت دیکھی جو واضع پیغام دے رہی تھیں کہ ہم نے جو خواب اپنی دھرتی ماں کے لیے دیکھے تھے وہ ادھورے رہ گئے اور ان کے چہرے کے تاثرات واضع طور پر اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ کاش ہم ایک بار پھر اْسی دور میں واپس چلے جائیں اور اور اپنا ادھورا رول ادا کر سکیں کاش ایسا ہو سکتا، اس تقریب کو منعقد کرنے کا سہرا ہمارے انتہائی محترم دوست لطیف شاہ کو جاتا ہے، ہماری ان سے گزارش ہے کہ اس طرع کی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کا دائرہ مزید وسیع کریں تاکہ ہم اپنے دیس کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اپنا مزید حصہ ڈال سکیں، آخر میں میری اس ملک کے حکمران طبقے اور اصل کرتا دھرتا سے گزارش ہے کہ ان نوجوانوں سے ڈریں نہ ان کو ملکی سیاست کا حصہ بننے دیں تا کہ ہم وراثت کی سیاست کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کر سکیں، آنکھیں کھولیں ورنہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
(بشکریہ جسارت)

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں