قابل تقسیم محاصل ، صوبائی ادائیگی میں تاخیر کب تک؟

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ حال ہی میں ضم ہونے والے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے قومی مالیاتی کمیٹی(این ایف سی)میں حصے کے وعدے کا معاملہ تمام صوبوں کے سامنے اٹھائیں گے۔وفاقی وزیر کی جانب سے یہ یقین دہانی سابق فاٹا کی ترقی سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں کی گئی۔اجلاس کے دوران شوکت ترین نے کمیٹی کو10ویں این ایف سی ایوارڈ کے قابل تقسیم پول میں فاٹا کا حصہ3فیصد حصہ مقرر کرنے کے لئے تمام صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے کے حوالے اپنی قرارداد کے بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے بجا طور پر کہا کہ سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات(فاٹا)کو اپنے محل وقوع اور30سال کی مشکلات کے سبب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔این ایف سی میں قبائلی اضلاع کے حصے اور اس سے متعلق اتفاق رائے میں پیش رفت میں مدد کے لئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پنجاب کا دورہ کر چکے ہیں کمیٹی کے اراکین بھی اس معاملے سے متعلق سندھ اور بلوچستان کا دورہ کریں گے۔این ایف سی میں قبائلی اضلاع کا حصہ باقاعدہ طور پر طے کرکے وصولی شروع کئے بغیر عجلت میں ان اضلاع کو خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع کا درجہ تو دیا گیا لیکن این ایف سی ایوارڈ میں ان اضلاع کے عوام کا حصہ ہنوزخیبر پختونخوا حکومت کو ادائیگی کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا ہے ۔10ویں این ایف سی ایوارڈ کے قابل تقسیم محاصل میں سابقہ فاٹا کا حصہ تین فیصد مقرر کرنے کے حوالے سے اس وقت جو مساعی ہو رہی ہیں ان سے قطع نظر سابقہ فاٹا کا حصہ تین فیصد مقرر کرنے کی تجویز پہلے سے ہی دی گئی تھی مگر صوبوں کو اس پر آمادہ نہ کیا جا سکا اور نہ ہی صوبے اس حوالے سے اب تک قبائلی اضلاع کے عوام کو ان کا حق دینے کے لئے عملی طور پر آمادہ ہیں۔اصولی طور پر تو یہ کوئی متنازعہ امر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک فارمولے کے تحت جب قبائلی اضلاع کا حصہ بقدر جثہ تین فیصد کرنے پرکوئی اختلاف موجود نہیں تو اسے عملی شکل دینے میں کیا امر مانع ہے گزشتہ حکومت کی اس حوالے سے عدم دلچسپی رہی یا جو بھی وجہ ہو وہ اپنی جگہ لیکن موجودہ حکومت کے قیام کے بعد بھی تین چار بجٹ پیش ہو چکے ہیں اور حکومت کا چوتھا سال گزر رہا ہے اس کے باوجود یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو وزیر خزانہ کی جانب سے یقین دہانی سے بات آگے نہیں بڑھ سکی ہے حالانکہ موجودہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کا سہرا خیبر پختونخوا کے عوام کو جاتا ہے صوبے میں تحریک انصاف کی یہ دوسری حکومت ہے جبکہ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے علاوہ ازیں صوبہ بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت ہے صرف سندھ میں مخالف سیاسی جماعت حکمران ہے ایسے میں کم از کم پنجاب اور بلوچستان کے صوبوں سے این ایف سی ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کے حصے میں ضم قبائلی اضلاع کے حصے کی تین فیصد رقم شامل کرنے پراتفاق زیادہ مشکل امر نہیں لیکن دیکھا جائے تو وزیراعظم عمران خان جن سے صوبے کے عوام کی توقعات کا وابستہ ہونا فطری امر ہے لیکن ان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش ریکارڈ پر نہیں جس پر اطمینا ن کا اظہار کیا جا سکے ۔ اس معاملے پرجو کمیٹی کام کر رہی ہے اس کا اپنا طریقہ کار ہے معلوم نہیں اس طریقہ کار کے تحت وہ دن کب آئے گا جب خیبر پختونخوا کے حصے میں تین فیصد اضافی رقم شامل کرنے پراتفاق قائم ہو جائے گا۔این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کے حصے کی رقم کے حصول کے لئے جدوجہد صوبائی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں سبھی کی مشترکہ ذمہ داری ہے اس ضمن میں کبھی کبھارباسی کڑھی میں ابال آتا رہتا ہے لیکن راست انداز میں مطالبہ اور اسے منوانے کے لئے جس قسم کا سیاسی دبائو اور عمل ناگزیر ہے اس کی کمی ہے ۔سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پنجاب کا دورہ اورسندھ اور بلوچستان کے دورے کا عندیہ اپنی جگہ اطمینان کا حامل امر ہے لیکن اگراسے تاخیر سے شروع کردہ احسن عمل قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا اس لئے کہ چار سال گزرنے کے بعد اس طرح کا اقدام کس قدر نتیجہ خیز ہو سکے گا اس حوالے سے غور کیا جائے توحکومت کے مدت اقتدار کے اختتام تک کسی پیش رفت کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتاہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی اختلافی امر نہیں اور نہ ہی خیبر پختونخوا کو تین فیصدقبائلی ا ضلاع کے حصے کے ضمن میں فراہمی کو ئی پیچیدہ اور ناممکن مطالبہ ہے بلکہ یہ سے طے فارمولہ ہے جسے صرف عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے اس ضمن میں جتنی تاخیر ہو گی اسے تین صوبوں کی جانب سے خیبر پختونخواکے ساتھ ناانصافی اور عوامی حقوق سے انکار ہی گردانا جائے گاجس کی ایک جمہوری نظام میںگنجائش نہیں ۔این ا یف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ نہ ملنے سے صوبے کا پورامیزانیہ ہی متاثر ہوتا ہے نیزصوبائی بجٹ سے ضم اضلاع کو فنڈز کی فراہمی صوبائی بجٹ پردبائو کا باعث بنتا ہے جس سے پورے صوبے کا ترقیاتی عمل متاثر ہوتا ہے ۔ این ایف سی ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کے حصے کی ادائیگی کے ضمن میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے اس ضمن میں عدم اتفاق کو اتفاق میں بدلنے کے لئے صدر مملکت اور وزیر اعظم کو خصوصی کردار ادا کرنا چاہئے جبکہ صوبائی حکومت اور صوبے کی سیاسی اور دینی قیادت کو پوری طرح متحد ہو کر اس ضمن میں ایک مرتبہ پھر جدوجہدشروع کرنی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین