روس ‘ یوکرائن جنگ اور وزیر اعظم کا دورہ

وزیر اعظم عمران خان ایک ایسے نازک وقت میں روس کے دورے پر ہیں جب ان کی ماسکو موجودگی کے دوران ہی روس نے یوکرائن کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دی ہے ۔ یوکرائن کے تنازعہ سے مغربی دنیا امریکہ اور چین سبھی پریشان اور مخمصے کا شکار ہیں اب روس کی جانب سے یوکرائن کی باغی ریاستوں کو خود مختار قرار دے کر ان کی مددکے لئے یوکرائن پرفوجی حملہ کے بعد وزیر اعظم کے پاس سفارتی محاذ پرصرف کچھ کرنے کا موقع باقی نہیں رہا بلکہ توازن برقرار رکھنا بھی مشکل بن گیا ہے تاکہ مغربی دنیا کی ناراضگی سے دو چار نہ ہونا پڑے اور ساتھ ہی چین اور روس کے بلاک کے ساتھ بھی اپنا تعلق برقرار رکھا جائے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی ایسی گنجلک اور گوناگوں ہے کہ ایک جانب ان کی جانب سے اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہم کسی بلاک کا حصہ نہیں لیکن ساتھ ہی امریکہ ‘ برطانیہ ‘ چین ‘ روس سبھی کے ساتھ پاکستان کسی نہ کسی طور روابط کااظہار بھی کرتا ہے ایسے میں کسی بلاک کا حصہ نہ ہوناتوبہتر حکمت عملی ہو گی لیکن ایسا کرکے تین میں نہ تیرہ میں ہونے کا جوخدشہ ہے وہ بھی اپنی جگہ حقیقت اور نازک صورتحال ہے ۔ان عوامل سے قطع نظراگردیکھا جائے تو پاکستان امریکہ سے دور ہوتا جارہا ہے اور اس کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔پاکستان کا بڑا مسئلہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں جس میں امریکہ اور یورپی یونین کا کردار اہمیت کا حامل ہے پاکستان کی امریکہ سے دور ی کے تجارتی اثرات بہت زیادہ ہونگے نیز عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ناراضگی بھی مول لینا کوئی آسان کام نہیں۔محولہ معاشی مفادات کے تناظر میںاگر دیکھا جائے توعالمی معیشت میں روس کا صرف تین فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات کی نوعیت بھی کوئی حوصلہ افزاء نہیں اس لئے کہ پاکستان کی صرف ایک فیصد برآمدات روس کو جاتی ہیںعالمی سطح پر روس کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو روس کے پاس آئی ایم ایف کے ڈھائی فیصد ووٹوں کی حمایت ہے ایف اے ٹی ایف میں بھی روس کا حصہ بہت تھوڑا ہے ۔ایسے میں بیک وقت پاکستان کی امریکہ ‘ روس اور چین کے ساتھ تعلقات کیسی ڈوپلومیسی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے جائیں کہ کوئی فریق بھی ناراض نہ ہوں۔وزیر اعظم پاکستان کے دورہ روس سے قطع نظر دیکھا جائے روس اور یوکرائن کا تنازعہ صرف دو فریقوں کا معاملہ نہیں بلکہ تو اس تنازعے کی پرانی تاریخ ہے امریکا اور یورپ کے ممالک اس مسئلے کو روس پر دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ امریکا کی جانب سے یوکرائن کو ناٹو کا رکن بنانے کے ارادے کے اظہار کو روس اپنے اوپر حملہ سمجھتا ہے۔ پیوٹن کی طرف سے تازہ اقدام دو علیحدگی پسند ریاستوں کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کو امریکا اور یورپ نے حملہ قرار دیا ہے۔ جوابی طور پر روس پر امریکا اور برطانیہ نے مالیاتی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ ان خطرناک حالات میں وزیراعظم کے دورہ روس کی نزاکت بڑھ گئی ہے اور یہ پاکستانی پالیسی سازوں کا امتحان بھی ہے۔روس اور یوکرائن کی جنگ کے آغاز پر جبکہ پوری دنیا یوکرائن کے ساتھ کھڑی ہے تو وزیر اعظم پاکستان روس کے دورے پر ہیںدنیا اس کو کس تناظر میں دیکھتی ہے اس کے اثرات پریقینا ہمارے پالیسی سازوں کی نظر ہو گی ۔امریکا ‘ روس کشیدگی اور اب یوکرائن پر روسی حملے کے فوری اثرات عالمی مارکیٹ پر ابتدائی گھنٹوں ہی میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ جنگ اگر طول پکڑتی ہے تو اس کے پوری دنیا پر نہ صرف معاشی دنیا میں منفی اثرات مرتب ہوںگے تیل اور گیس کی عالمی منڈی بھی اس قضئے سے متاثر ہونے لگی ہے اور اس کے اثرات واضح طور پرسامنے آنے لگے ہیں۔ گزشتہ روز تیل کی قیمتوں میں واضح اضافہ دیکھا گیا اس وقت خام تیل کی قیمتیں ایک سو ڈالر فی بیرل سے اوپر چلی گئی ہے جبکہ سونے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر دیکھا جائے تو توانائی کی قیمتوں کے جلد نیچے آنے کا کوئی امکان نہیں اور آنے والے دنوں میں ان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔مشرقی یورپ میں کشیدگی سے جہاں وسطی ایشیاء ‘ جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے علاقے براہ راست متاثر ہوں گے وہیں لا محالہ دنیا بھرکے اقتصادیات پراس کے شدید منفی اثرات مرتب ہونا فطری امر ہوگا۔ بلکہ تیسرے جنگ عظیم کا بھی خطرہ ہے ۔دیکھا جائے تو یہ صرف روس اور یوکرائن کے درمیان کشیدگی ہے لیکن اس کے عالمی اثرات سے صرف نظر ممکن نہیں۔یوکرائن اور روس میں تصادم کے تناظر میں نیٹو فورسز کا متحرک ہونا تباہ کن نتائج کا حامل ہو گا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میںمشکلات پیدا ہونگی اور انسانیت پس کر رہ جائے گی اگرچہ عالمی برادری اس بحران کو ٹالنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکی اور جنگ شروع ہو چکی ہے اس کے باوجود بھی مغربی ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک کودونوں ممالک کے درمیان جلد سے جلد جنگ بندی اور فائر بندی کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ تصادم کی تباہ کاریوں میں مزید اضافہ نہ ہو اس معاملے کا مناسب حل بالاخر مذاکرات اور مصالحت ہی میں پوشیدہ ہے اس حوالے سے اقوام متحدہ پر سب سے بڑی ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ وہ جنگ کے شعلوں کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
ہارس ٹریڈنگ کی باز گشت
ملک میں سیاسی جوڑ توڑ کے عروج پر پہنچتے ہی ہارس ٹریڈنگ اور بولیاں شروع ہونے کے الزامات سامنے آنے لگے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات نے الزام لگایا ہے کہ ان کے تین اراکین کو رقم کا لالچ دیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ لوٹ مار کے دو بڑے سوداگر اکٹھے ہوگئے ہیں معاملات پر نظر ہے ہارس ٹریڈنگ نہیں ہونے دی جائے گی۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں عدم اعتمادکی تحریک پیش کرکے حکومت گرانے اور حکومت کی جانب سے اپنے تحفظ میں آخری حد تک جانے ‘جس میں ہر قسم کی لالچ اور مراعات دینا شامل ہیں ماضی میں مروجہ ملکی سیاست کا حصہ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ ماضی اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے صرف یہی نہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی کسی نہ کسی حد تک ہر دو فریقوں میں سے ایک فریق اعانت کے حصول سے تمام تر دعوئوں کے باوجود احتراز نہیں کرتا ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا کر حکومت کا خاتمہ یقینا حزب اختلاف کا آئینی اور جمہوری حق ہے اور حکومت کو دفاع کا حق اسی آئین اور دستور کے مطابق حاصل ہے لیکن اس کے لئے ہارس ٹریڈنگ یا غیر سیاسی قوتوں کی مدد حاصل کرنا دستور اور آئین کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ اگر اسے غداری میں شمار کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اس طرح سے بچ جانی والی حکومت ہو یا اقتدار میں آنے والی حکومت کبھی بھی مستحکم اور جمہوری روایات کی حامل نہیں ہو سکتی بلکہ ان عناصر کے ہاتھوں اس طرح کی حکومتیں پینڈولم بن جاتی ہیں جو باقی مدت اقتدار عوام کی خدمت اور ان کے مسائل کو رفع کرنے کی سعی کی بجائے ان طفیلیوں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھنے پر مجبور ہوتی ہے حکومت اور حزب اختلاف ہر دو کے حق میں بہتر یہی ہو گا کہ وہ راست اور معروف طریقے سے حکومت بچانے اور تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اسے کامیاب کرنے کا جمہوری عمل اختیار کریں اور بیساکھیوں کی مدد لینے سے گریز کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں