عورت مارچ کا ہنگامہ

کل روزنامہ مشرق کی بڑی خبر یہ تھی کہ ” عورت مارچ پر مذہبی اور لبرل آمنے سامنے”۔ اس خبر کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ اگر 8مارچ کو اسلام آباد میں خواتین کے حقوق کی آڑ میں بے حیائی پھیلانے کی کوشش کی گئی تو سخت مزاحمت کریں گے۔ اس کے جواب میں آزاد خیال افراد اور عورت مارچ کے منتظمین نے کہا ہے کہ یہ بنیاد پرست ملا کچھ بھی کر لیں ،عورت مارچ ضرور ہوگا۔ اُدھر سوشل میڈیا اور مختلف ٹیلی ویژن چینل پر مارچ کے حامی اور مخالفین ایک دوسرے کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اب ہر سال عورت مارچ کے حوالے سے ایک ہنگامہ گرم رہتا ہے۔ اس ہنگامہ آرائی کے کئی محرکات ہیں مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ طرفین کی خواتین کے دفاع میں صف آرا ہونے کے باوجود عورت ہی تماشا بنی رہتی ہے۔ یہ کیسے حقوق کے روشن خیال علمبردار ہیں اور یہ کیسے اخلاقیات کا درس دینے والے واعظ ہیں کہ جن کے سبب اس دن عورت سرِ عام مردوں کی نگاہوں کا نشانہ ہوتی ہے۔ وہ ماضی کی طرح آج بھی ایک موضوع بنتی ہے۔ عورت کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی طرح عورت کو بھی خدا نے آزادی کی فضا میں سانس لینے کے لیے پیدا کیا لیکن پیدائش کے بعد مرد ہی اس کی آزادی کی فضا کو آلودہ کر دیتا ہے۔سیمون نے اپنی تالیف ‘سیکنڈ سیکس’ کا آغاز ہی اس فقرہ سے کیا ہے کہ ”عورت اس طرح جنم نہیں لیتی ،جیسی کہ وہ بنا دی جاتی ہے”۔ عورت آج بھی دُنیا کے قدیم اور وسیع موضوعات میں سے ایک ہے۔مذہب ،اخلاقیات، عمرانیات ، بشریات ، نفسیات اور نہ جانے کتنے علوم ہیں جنہیں محدب شیشہ بنا کر عورت کو دیکھا گیا، جانچا گیا اور پرکھا گیا۔ معاشرہ کے مردانہ معیار کے مطابق عورت خود کو بدلتی رہی ہے اوریہ عمل صدیوں سے جاری ہے ۔ قران مجید میں مرد اور عورت کی مساوات کا جو واضح اسلوب میں بیان ہے ،اس سے مرد کی برتری اور عورت کی کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام نے جہاں عورت کو عزت،حرمت اور احترام دیا ، وہاں حقوق دے کرنظامِ زیست میں اس کا کردار متعین کیا۔ قران مجید کی آیاتِ اور احادیث میں عورت کے حوالہ سے جو کچھ کہا گیاہے ، اس میںکسی قسم کا کوئی ابہام نہیں مگر اس کے باوجود اسلامی ممالک سمیت پاکستان میں عورت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ، اسے بیان کرنے کو بطورِخاص کسی مثال کی ضرورت نہیں کہ ہم سب اسی معاشرہ کا حصہ ہیں اورعورت کے معاملہ میں اپنی سی کرنے سے چوکتے بھی نہیں۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی بازیابی اور آواز بلند کرنے کے لیے عورت مارچ کے طریقہ کار پر ایک اکثریت تحفظات رکھتی ہے اور بہت سے لوگ اس کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں۔ عورت اور مرد کی مساوات احترام ِ انسانیت کے نقطہ نظر سے ہے،انتظامی لحاظ سے یہ مساوات ممکن نہیں ہوسکتی کہ کنبہ کا سربراہ اِن میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ”مرد عورتوں پر قوام ہیں”۔ اس لیے کنبہ کا سربراہ مرد ہے ورنہ عین ممکن ہے کہ گھر فتنہ فساد کا اکھاڑہ بن جائے۔ یہ بھی ارشادِ خداوندی ہے کہ” تمہاری بیویاں تمہارے لیے پوشاک ہیں اور تم ان کے لیے”۔ لفظ پوشاک نہایت ہی جامع اور وسیع المعانی ہے۔ اس کے ساتھ حیا بھلائی کی جڑ ہے بلکہ ایک ایسی صفت ہے ،جس کی وجہ سے انسان بڑے بڑے رذائل سے بچ نکلتا ہے۔ نبی اکرم ۖ کا فرمان ہے ” حیا ایمان کا حصہ ہے”۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے فکری اغوا میں ایک اہم پہلو حیا کا خاتمہ رہا۔ عورت آئندہ نسلوں کی معمار ہے ،لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمان معاشرے کو حیا دار بنانے کے لیے عورت کی حیا کا اہتمام زیادہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ حیا زبان کی گفتگو پر بھی محیط ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کسی گالی نما لفظ یا اس بات کا ذکر سرِعام نہ کیا جائے جس کا تعلق جنسی افعال یا کسی بے حیائی سے ہو۔ ظاہر ہے گفتگو کے ساتھ ساتھ تحریر بھی اس میں بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔ حیا یہ بھی ہے کہ اپنے جسم کے اعضائے ستر کو کسی طرح ظاہر نہ ہونے دیا جائے۔ اب عورت مارچ کے حوالے سے جو گفتگو کی جارہی ہوتی ہے یا مارچ کے دوران ہماری خواتین نے اپنے ہاتھوں میں اُٹھائے بینرز پر جو جملے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان پر لوگوں کو اعتراض ہے کہ کسی اعلیٰ مقصد کو پانے کے لیے یہ طریقہ یقیناً مناسب نہیں۔ لبرل مسلمان یا آزاد خیال مسلمان کی اصطلاح بھی مسلمانوں کو طاغوتی جال میں پھنسانے کے لیے وضع کی گئی۔ اسلام صرف انفرادی عبادات کا نام تو نہیں کہ ان کے ادا کرنے سے اسلام کا حق ادا ہو گیا۔اس کا دائرہ عمل پوری زندگی پر محیط ہے۔ عورت مارچ کے منتظمین کو سڑک پہ آنے سے پہلے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے ماں،بیٹی،بہن اور بیوی کی حیثیت سے اُس کے حقوق متعین کیے ہیںاور وراثت میں شریک کیا ہے۔ ہمارے یہ لبرل دوست اُن تمام نظریاتی یلغار کرنے والوں کو بھی پہچانیں کہ ان کا اصل مقصد دین اسلام میں نقب زنی اور ہمارے دل و دماغ میں شکوک پیدا کرنا ہے۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں