تحریک انصاف کا جلسہ اور سوالات

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان نے عدالت سے سوال کیا ہے کہ رات کے اندھیرے میں عدالت کیوں لگائی۔عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے پشاور میں ہونے والے پہلے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ عوام امپورٹڈ حکومت تسلیم کرلے گی، قوم نے اپنا فیصلہ سنادیا کہ امپورٹڈ حکومت نا منظور ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم غیروں کی حکومت کو نہیں مانتے انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کے تمام شہروں سے ان کے خلاف سڑکوں پر نکلوں گا۔تحریک ا نصاف کے قائد عمران خان نے معزز عدالت سے جو سوال کیا ہے اس کا جواب ماہر قانون ہی دے سکتے ہیں یا پھر ان کو اس سوال کا جواب عدالت ہی دے سکتی ہے مگر عدالت کسی کی پابند نہیں ۔مشکل امر یہ ہے کہ جب سیاستدان پارلیمان کے اندر اپنے مسائل کے حل کی بجائے جب معاملات کو پیچیدہ اور پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچائیں تو حکومتی اداروں کو بادل ناخواستہ ہی سہی مداخلت کرنی پڑتی ہے تحریک عدم اعتماد پر دستور کے مطابق ووٹنگ ہو جاتی تو سیاستدانوں کی داڑھی کسی دوسرے کے ہاتھ نہ جاتی اس کے بعد کے معاملات میں بھی اگر بصیرت کا مظاہرہ کیا جاتا تو کسی ناخوشگوار صورتحال کی نوبت نہ آتی جہاں تک سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانئے کا تعلق ہے اس پر زیادہ عرصہ انحصارتحریک انصاف کے مفاد میں نظر نہیں آتاکیونکہ ان سے قبل رخصت شدہ حکومت کے کارپردازوں اور پی ٹی آئی کی حکومت ان کے حزب اختلاف کے رہنمائوں نے جو بیانیہ اپنایا تھا ان کو بھی بالاخر مصلحت کی ردا اوڑھنی پڑی جس کے بعد ہی صورتحال میں تبدیلی کا آغاز ہوااس حقیقی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے جتنا جلد بیانیہ تشکیل دیا جائے بہتر ہوگا۔جہاں تک تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے پاکستان کے تمام شہروں میں احتجاج اور جلسوںکا تعلق ہے وقتی طور پر حکومت کے خاتمے کا عوامی رد عمل منفی عمل نہیں بلکہ مثبت کے زمرے میں آتا ہے لیکن اسے طول دے کر جاری رکھنا مشکل بھی ہے اور ٹکرائو کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے جس سے تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف کی قیادت کو وقتی جذبات سے نکل کر آئندہ کی ٹھوس منصوبہ بندی پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے سڑکوں پر احتجاج میں وقت صرف کرنے سے زیادہ اہمیت اس بات پر دی جانی چاہئے کہ ماضی کی غلطیوںکا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے اور اپنی جماعت کو کارکنوں کی سطح پر پوری طرح منظم بنا کر آئندہ انتخابات کی تیاری کی جائے ۔
تنگ آمد بہ جنگ آمد
خیبر پختونخواکے دارالحکومت پشاور اور اس کے مضافات ہی میں نہیں بلکہ لوڈ شیڈنگ پورے صوبے کے عوام کا مسئلہ ہے جس کی شدت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔خیبر پختونخوا میں صوبے کی ضرورت سے کہیں زائد بجلی ہوتی ہے اس کے باوجود صوبے کو اس کے کوٹے کے مطابق بجلی کی فراہمی بھی نہیں کی جاتی یہ ایک طویل عرصے سے چلے آنے والا مسئلہ ہے جس سے قطع نظرلوڈ شیڈنگ پرکسی گرڈ میں گھس کر بجلی بحال کرنے کے غیر قانونی اقدام کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے ماضی میں بھی اس طرح کے ڈرامے ہوتے رہے ہیں جس طرح کا ڈرامہ گزشتہ شب رحمان بابا گرڈ میں رچایا گیا یہ ایک خطرناک رجحان ہے جسے اگر ابتداء ہی میں نہ روکا گیا اور کارسرکار میں اراکین ا سمبلی کی جانب سے مداخلت ہوتی رہے تو بعید نہیں کہ عوام بھی ازخود جا کر بٹن آن کرکے بجلی بحال کرنے کا طریقہ اپنا لیں۔ پیسکو حکام کو بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت نہیں آنے دینا چاہئے ابھی گرمی کی شدت میں اضافہ نہیں ہوا کہ بے تحاشا لوڈ شیڈنگ شروع کر دی گئی ہے یہاں تک کہ سحر وافطار کے وقت بھی بجلی چلی جاتی ہے جس کے خلاف عوام میں اشتعال فطری امر ہے ۔کوشش کی جائے کہ پیسکو حکام عوام کو خواہ مخواہ احتجاج پر مجبور نہ کرے جبکہ عوامی نمائندوں کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین