کہنے کے لئے ہم بھی زباں رکھتے ہیں ‘ لیکن

یہ جوپی ٹی آئی کے 123 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرکے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دی گئی ہے’ اس حوالے سے صورتحال بڑی دلچسپ ہوتی جارہی ہے ‘ یہ بھی نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق جن 31ارکان اسمبلی نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے ان کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے پی ٹی آئی انہیں منحرف قرار دے کر انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کے لئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کے لئے متحرک ہو چکی ہے ‘ تاہم یہ ساری صورتحال بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایوب خاور کے اس شعر کی مانند ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
جہاں تک 123 ارکان کے استعفوں کا تعلق ہے ان پر یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر(سپیکر تو پہلے ہی مستعفی ہو کر جا چکے ہیں) نے ان ارکان سے تصدیق کئے بناء کیسے ان کی منظوری دی کیونکہ واقفان حال کے مطابق کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ اپنے ہاتھ سے لکھ کر متعلقہ ایوان کے چیئرمین ‘ سپیکر کو پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں یہ استعفے ایک خاص پیٹرن پر پارٹی لیٹر پیڈ پر کمپوز کرکے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے ہیں ‘ اس سے پہلے بعض خبروں کے مطابق متعدد ممبران نے موجودہ حکومتی حلقوں سے مبینہ طور پر رابطے کرکے اپنے استعفوں سے لاتعلق ہونے کا ا ظہار کیا تھا ‘ اس لئے ممکن ہے کہ جولوگ مستعفی ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے یا اس اقدام کے خلاف ہیں وہ بھی عدالت سے رجوع کرکے پارٹی پالیسی سے انحراف کریں اور اپنے استعفے واپس لینے کی کوشش کریں ‘ بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا اور اس قسم کی قانونی موشگافی کا حل بھی عدالتوں کے ذریعے نکالنے کی تدبیر کی جائے کہ جو استعفے ”بقلم خود” نہ لکھے گئے ہوں ‘ ان کی قانونی حیثیت کیا ہے ‘ اس حوالے سے 2014ء کے دھرنے کے دوران بھی جب اسی طرح پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر استعفے قومی اسمبلی میں جمع کرائے تھے اور اس وقت کے سپیکرسردار ایاز صادق نے مستعفی ہونے والوں کو بذات خود سپیکر کے پاس حاضر ہوکر تصدیق کرنے کو کہا تو ممبران بضد تھے کہ وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طورپرتصدیق کرنے کو تیار ہیں ‘ جبکہ بقول ایاز صادق اس وقت بھی کئی ممبران( درون خانہ ) ان کو استعفے منظور نہ کرنے کی درخواستیں کرتے رہے ‘ اور یہ معاملہ تب تک لٹکا رہا جب تک پشاور میں آرمی پبلک سکول کا سانحہ رونما نہ ہوا تھا’ جسے بہانہ بنا کر عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرکے اسمبلی میں نہ صرف واپسی کی راہ نہ لی بلکہ دھرنے کے دوران اسمبلی میں غیر حاضری کی تنخواہ بھی وصول کی ۔ بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے اور مستعفی ہونے والے واقعی سنجیدہ ہیں یا پھر ان کے اندر بھی ہلچل ہوتی ہے اور بعض یاکچھ ارکان عدالتوں سے رجوع کر کے اپنے استعفے واپس کرواتے ہیں ‘ ایسی صورت میں ایک نئی قانونی بحث چھڑ سکتی ہے ‘ ہاں البتہ یہ جو منحرف قرار دیئے جانے والوں کو ڈی سیٹ اورتاحیات نااہل کرانے کی ممکنہ اور مبینہ تگ و دو ہے اور پارٹی سربراہ کی ہدایات پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کر لیا ہے تو اس حوالے سے بھی عدالت ہی کوئی حتمی رائے دے سکتی ہے’ کیونکہ منحرف ہونے والوں نے عدم اعتماد کی ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا اور آئین کے مطابق یہ لوگ فلور کراسنگ کے مرتکب ہی نہیں ہوئے توان کے خلاف پارٹی تادیبی کارروائی کیسے کر سکتی ہے ۔ ان دنوں معاملات کی ایک شاعر نے کیا خوب وضاحت کی ہے
کبھی تو بیعت فروخت کردی کبھی فصیلیں فروخت کردیں
مرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کر دیں
وہ اپنے سورج توکیا جلاتے ‘ مرے چراغوں کو بیچ ڈالا
فرات اپنے بچا کے رکھے ‘ مری سبیلیں فروخت کر دیں
پی ٹی آئی استعفوں کا کارڈ استعمال کرکے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے شاید آنے والے دنوں میں یہ ایک ڈرائونا خواب بن کر الٹا اسے ہی پریشان کرے ‘ کیونکہ آئین اور قانون میں اتنی گنجائش ہے اور یہی بیانیہ موجودہ حکومت میں شامل پارٹیوں کے اکابرین کا بھی ہے کہ وہ خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرا کے اپنی اپنی جماعتوں کے ممبران لا کر اسمبلی بھر دیں گے جس کے بعد انہیں دوتہائی اکثریت بھی مل جائے گی اور وہ جس طرح چاہتے ہیں قانون سازی کرکے انتخابی اصلاحات مکمل کر لیں گے ‘ یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں پی ٹی آئی بھی انتخابی اصلاحات لانے اور مشین کے ذریعے ووٹنگ اور دیگر” متنازعہ” قوانین تبدیل کرنے کی پیشکش کرتی رہی ہے دراصل جوصورتحال اس وقت پی ٹی آئی کو درپیش ہے وہ اس بات کی غماز ہے کہ اس سے اپنے مقاصد کی گاڑی”چھوٹ” چکی ہے اس لئے اب حالات اس محاورے کی مانند دکھائی دیتے ہیں یعنی اب پچھائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ‘ صورتحال تب اس کے قابو میں رہتی جب عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرتے ‘ انہوں نے قومی اسمبلی کوگھر بھیجنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کے خلاف تحریک ٹیبل ہو چکی تھی جس کے بعد ان کا اسمبلی کو فارغ کرنے کا اختیار ہی نہیں رہا تھا ‘ اب پنجاب اسمبلی بھی ان کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے ‘ البتہ خیبر پختونخوا اسمبلی کو فارغ کرنے کے لئے وہ اب بھی وزیر اعلیٰ کو کہہ سکتے ہیں مگر خیال رہے کہ یہ جو حالیہ دنوں میں وزیر اعلیٰ محمود خان کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی یہ بھی مبینہ طور پر”ملی بھگت” تھی اور صوبائی حکومت کی ایماء پر سارا ”کھیل” اسمبلی کو بچانے ہی کے لئے رچایا گیا تھا ‘ حقیقت کیا ہے یہ بھی ایک نہ ایک روز سامنے آجائے گی ‘ بہرحال دیکھتے ہیں کہ 123 استعفوں اور منحرفین کے خلاف قانونی اور آئینی اقدامات اٹھانے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ کہ بقول صدیق فتح پوری
کہنے کیلئے ہم بھی زباں رکھتے ہیں لیکن
یہ ظرف ہمارا ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی