یوکرین بحران کے باعث افغانستان نظرانداز

یوکرین پر روس کے حملے کو دوسرا مہینہ جاری ہے، یورپ کو بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں اورسکیورٹی بحران کا سامنا ہے، روس پر پابندیوں کے باعث شدید اقتصادی دباؤ بڑھ رہا ہے اور مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بیشتر ممالک کو یہ فکر لاحق ہے کہ اس لڑائی سے یوکرین سے غذائی اشیاء کی درآمد متاثر ہوگی، یوکرین پر تمام تر توجہ کے باوجود ایک اور جغرافیائی سیاسی مسئلہ بھی درپیش ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ افغانستان ہے جسے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے آٹھ ماہ بعد بھی شدید انسانی بحران کا سامنا ہے اور طالبان حکومت ملک کو درپیش اس انسانی بحران سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے، اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سال کے وسط تک97 فیصد افغان غربت کی زندگی گزار رہے ہوں گے، بھارت میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں11 ملین افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، ایسا نہیں لگتا کہ امریکہ یا عالمی برادری کے پاس اس انسانی بحران سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل موجود ہے۔
امریکی پالیسی حلقوں میں افغانستان بمشکل موجود ہے ،مثلاًصدر جو بائیڈن نے کانگریس سے اپنے حالیہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران ایک بار بھی افغانستان کا ذکرتک نہ کیا بلکہ اس وقت سب کی نظریں یوکرین پرمرکوز ہیں ،اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کی مدد کیلئے 204ملین ڈالر کی انسانی امداد فراہم کرے گا اور یہ فنڈنگ بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ذریعے دی جائے گی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کسی امدادی گروپ کے پاس افغانستان میں مؤثر طریقے سے کام کرنے کی آزادی اور صلاحیت بھی موجود ہے، ایک اور بحران جس کا افغانستان پر طویل مدتی اثر پڑے گا وہ ہے خواتین کی تعلیم کے فقدان کا ہے،گزشتہ سال اگست میں جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگا دی تھی، بعد میں انہوں نے اس میں نرمی کی اور اعلان کیا کہ 23مارچ کو نوروز کی چھٹی تک لڑکیاں سکولوں میں واپس آجائیں گی لیکن ابھی تک یہ ممکن نہ ہوسکا ۔
اہم بات یہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ بھی کم نہیں ہوا، امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ میک کینزی نے گزشتہ ماہ کانگریس کو اپنی سالانہ بریفنگ کے دوران بتایا کہ القاعدہ جیسے گروپ افغانستان میں امریکی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو دوبارہ متحرک کرنے اور براہ راست بیرونی حملوں کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال اور خوراک کا بحران لوگوں کو انتہا پسندوں کے بازوں میں دھکیل دے گا ،گزشتہ سال افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کے وقت، بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ملک سے باہر واقع اڈوں سے ملک میں ابھرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات سے افق کے اوپر سے کارروائی کی صلاحیت سے نمٹا جا سکتا ہے ، میک کینزی نے کانگریس کو بتایا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں افق سے اوپر سے کرنا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں تاہم چونکہ اس طرح کی صلاحیت عملی طور پر کیسے کام کر سکتی ہے اس کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں،امریکی افواج کے جانے کے آٹھ ماہ بعد بھی اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ امریکہ ان طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ملک میں القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپ تیزی سے سرگرم ہو رہے ہیں، افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیوں پربھی نظر رکھنی چاہیے،قومی مزاحمتی محاذ کی قیادت قابل اور ذہین احمد مسعود کر رہے ہیں، جو سابق مزاحمتی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں، جنہوں نے 1980اور 1990کی دہائیوں میں سوویت افواج اور طالبان کے خلاف جنگ لڑی۔ گزشتہ سال طالبان کے کابل پر قبضے کے فوراً بعد ہزاروں جنگجوں نے دارالحکومت سے تقریباً 100کلومیٹر شمال میں واقع وادی پنجشیر میں پناہ لی، طالبان نے فوری طور پر علاقے پر حملہ شروع کر دیا لیکن مزاحمتی جنگجو سردیوں کے موسمی حالات اور علاقے کی ٹپوگرافی کو بطور تحفظ استعمال کرنے میں کامیاب رہے ،اب خدشہ ہے کہ قومی مزاحمتی محاذ ملک کے شمال میں تاجک اکثریتی علاقوں میں طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کر دے گا اس لئے ایک طرف جہاں دنیا کی توجہ یوکرین پرمرکوز ہے وہاں افغانستان میں بھی بہت کچھ واقع ہو رہا ہے اور جیسے جیسے وہاں حالات خراب ہوتے جائیں گے اس کے اثرات افغانستان کی سرحد سے باہر اور پورے خطے میں محسوس کئے جائیں گے،ایسا لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے پاس ایک وقت میں ایک سے زیادہ بڑے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے اور نہ عز م ہے چنانچہ ایسا لگ رہا ہے کہ افغان عوام کی مشکلا ت جاری رہیں گی۔(بشکریہ،عرب نیوز،ترجمہ : راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین