ہمیشہ کے لئے چہرے نقابوں میں نہیں رہتے

اشرف غنی اور ان سے پہلے حامد کرزئی کے ادوار میں جب بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی تو کابل ‘ قندھار ‘ جلال آباد اور دیگر شہروں میں افغانی پاکستان کے خلاف اپنے خبط باطن کا اظہار نہ صرف پاکستانی پرچم بلکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر کی بے حرمتی کرکے ہمارے احسانات کا ”بدلہ” چکانے کی صورت کرتے ‘ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر لاتعداد وڈیوز اور تصاویر پاکستان کے عوام کو دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ‘ ہمارے پرچم اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویروں کو جلانے ‘ ان کی بے حرمتی کرنے (جس کو الفاظ میں بیاں کرنے کی کم از کم ہم جرأت نہیں کرسکتے) کاریکارڈ یقیناً گوگل پراب بھی دستیاب ہو گا’ جسے شوق ہو وہ تلاش کرکے دیکھ لے کہ جن کو گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے مار آستین کی طرح ہم نے دودھ دے کر پالا ‘ یعنی ان کی لگ بھگ تین نسلیں پاکستان کے چپے چپے پر پلتی رہیں ‘ ہم ان کے ساتھ اپنا رزق بانٹ کر ان کو پروان چڑھاتے رہے ‘ جبکہ پاکستان کی کھا کر جو نمک حرامی وہ کرتے رہے اس پر اگر پاکستان نے کابل حکومتوں سے کبھی احتجاج کیا بھی تو اس پر وہاں سے معافی تو دور کی بات ہے ‘ معذرت تک کبھی سامنے نہیں آئی ‘ ان کا انداز بالکل بچھوئوں والا تھا جو ایک فارسی شعرمیں کس خوبصورتی سے سامنے آتا ہے کہ
نیش عقرب نہ از رہ کیں است
مقتضائے طبعیتش ایں است
بچھو کسی عناد اور دشمنی کی وجہ سے ڈنک نہیں مارتا ‘ بلکہ ڈنک مارنا تو اس کی فطرت ثانیہ ہے ‘ جب نام نہاد افغان جہاد کے نام پر افغانوں کے ”ریوڑ کے ریوڑ” یہاں آئے تو ان میں جہاں شریف ‘ سادہ اور اچھے لوگ بھی شامل تھے وہیں تخریب کار ‘ چور ‘اچکے ‘ ڈاکو اور خاص طور پر سود خوروں کے جتھے کے جتھے بھی ہجرت کرکے پاکستانی معاشرے کو ہرطرح سے تباہ و برباد کرنے آموجود ہوئے ‘ اس پر تفصیل سے لکھنے کی کالم میں گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ ان کے کردار کے حوالے سے شنیدہ کے بود مانند دیدہ کی مانند جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ‘ باغ تو سارا جانے ہے کہ تفسیر بن چکے ہیں بہرحال ماضی میں افغانوں کی سرگرمیاں اس لئے یاد آئیں جن پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول پوری طرح منطبق ہوتا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو ‘ کہ جو کام گزشتہ کل بعض عاقبت نااندیش افغان کر رہے تھے ‘ آج وہی حرکتیں ہمارے اپنے ہی لوگ بیرون ملک بیٹھ کر کر رہے ہیں ۔ گویا بقول ڈاکٹر جنید آذر
ہمیشہ کے لئے چہرے نقابوں میں نہیں رہتے
سبھی کردار کھلتے ہیں کہانی ختم ہونے پر
حکومتوں کا تبدیل ہونا سیاسی کھیل کا حصہ ہے اور گزشتہ 72سال کے دوران ملکی سیاست میں اتار چڑھائو معمول کا حصہ اور پاکستانی سیاسی تاریخ میں تغیر و تبدل کا معمول رہا ہے مگر جانے گرائی جانے والی یا برطرف شدہ حکومتوں کے رہنمائوں نے اس پر احتجاج کو اس انتہا تک پہنچانے کی کبھی کوشش نہیں کی جس سے ملکی سا لمیت کو خطرات لاحق ہوجائیں بلکہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں سمجھ کر پھر سے اٹھنے کی کوشش کرکے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کامیاب کوششیں بھی ہماری تاریخ کاحصہ رہی ہیں ‘ اس پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک جس قسم کا رد عمل دنیا شروع کیا ہے اس کے ساتھ کوئی بھی ذی ہوش اور سنجیدہ محب وطن شہری اتفاق کا اظہار نہیں کر سکتا اندرون ملک تو تحریک کے کارکن سوشل میڈیا پر گالم گلوچ ‘ اور قابل اعتراض نعرے بازی کر ہی رہے ہیں ‘ جوگزشتہ کچھ مدت سے ان کا وتیرہ ہے اسے پھر بھی کسی نہ کسی طور برداشت کیا ہی جارہا ہے مگر جب سے تحریک انصاف کی حکومت کے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی ہے اور اس کے خلاف تحریک کے اکابرین نے ایک ایسا پروپیگنڈہ مہم چلا رکھی ہے جس کے تحت اپنے مخالفین کو غدار قرار دے کر ٹیگ استعمال کرکے سیاسی کشیدگی کو ہوا دی جارہی ہے ‘ افغانوں سے تو پھربھی گلہ کرنے کاجواب نہیں بنتا تھا کہ بہرحال وہ غیر ملکی تھے’ مگر جولوگ پاکستانی ہو کر اپنے پرچم اور پاسپورٹ کی بے حرمتی کر رہے ہیں وہ ہر گز کسی معافی کے مستوجب نہیں ہوسکتے ‘ اور ایسے لوگوں سے سوشل میڈیا پر کئے جانے والے یہ مطالبات بالکل درست اور جائز ہیں کہ جو لوگ پاکستانیت کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کے نہ صرف پاکستانی پاسپورٹ کینسل کرکے انکی وطن واپسی پر پابندی لگا دی جائے بلکہ انہیں کہلایا جائے کہ اگر ان میں ہمت اور اخلاقی جرأت ہے تو وہ جن ملکوں میں رہائش پذیر ہیں وہاں کے شہریت چھوڑنے کی جرأت کرکے ان ممالک سے حاصل کئے ہوئے پاسپورٹ جلا کر دکھائیں ‘ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس ان ممالک کی دوہری شہریت بھی ہے اور پاکستان کے بھی ایک سے زائد پاسپورٹ ہیں یعنی ایک ایکسپائر ہونے کے بعد دوسرا اور تیسرا حاصل کرلیتے ہیں ‘ اس لئے انہوں نے ایکسپائر پاسپورٹ جلا کرجس”عاقبت نااندیشیانہ بہادری” کا مظاہرہ کیا ہے اس کی حقیقت سب جانتے ہیں ‘ تاہم ان کی یہ حرکت پاکستان کی توہین ہے اور ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ یہ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ کینیڈا وغیرہ وغیرہ کی شہریت چھوڑ کر وہاں کے پاسپورٹ جلا سکیں ‘ جس کے نتیجے میں انہیں پہلے تو طویل مدت جیل کی ہوا کھانی پڑے گی اور پھر انہیں ڈی پورٹ بھی کیا جائے گا ان کے اپنے رہنمائوں میں اتنی جرأت نہیں ہے جو امریکہ پر ”سازش” کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے اس کا مظاہرہ گزشتہ روز ایم جے ٹی وی کے اینکر مطیع اللہ جان نے جب تحریک ا نصاف کے ”چیف آف سٹاف” ڈاکٹر شہباز گل سے امریکہ مردہ باد کہنے کا مطالبہ کیا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے پتلی گلی سے نکل گئے ‘ خود ان رہنمائوں میں تو امریکہ مردہ باد کہنے کی جرأت نہیں مگر جذباتی نوجوانوں کو آگے کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں ‘ حالانکہ ان کے بیانئے کی تو گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے ترجمان نے دھجیاں اڑا کر رکھ دیں ‘ تاہم یہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ ”میں نہیں تو کوئی نہیں”۔
نامہ برحال مرا ان سے زبانی کہنا
خط نہ دینا کہ وہ اوروں کو دکھا دیتے ہیں

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟