ہے کچھ باعث تاخیر

مسلم لیگ( ن) کے ساتھ ہا تھ ہو گیا پی پی اپنی تیز طرار سیا سی چالوں سے اپنا دامن بچا لے گئی ۔ لوگ استفسار کر تے ہیں کہ وفاقی کا بینہ کی تشکیل میں کیا تاخیر ہے ، بظاہر ایسی کوئی بات محسوس نہیںکی جا رہی ہے مگر یہ تسلیم کرنے کی بات ہے کہ پی پی اپنے کا رڈدھیمے انداز سے کھیلتی ہے مدمقابل کو پتہ بھی نہیں چل پاتا کہ پی پی کی ترپ چال کا کیسے سامنے آگیا ۔ جب عمر ان خان کے خلا ف تحریک عدم اعتما د کا غلغلہ تھا اس وقت یہ بات سامنے آگئی تھی کہ اس ساری بازی کے آرٹیکلچر جناب آصف زرداری ہیں چلیںجو بھی تھا اب ان کے اتحاد کو کا میا بی حاصل ہوچکی ہے ۔ جب میا ں شہبا ز شریف کا نا م بطور وزیر اعظم سامنے آیا تو اسی وقت ماتھا ٹھنکا کہ عمران خان کے خلا ف سیا سی اتحاد تو ایک مشترکا نکتہ تھا جس پر سب اکٹھے ہوگئے لیکن اقتدار منڈل پر کیسے برابری ہو گی ، شہبازشریف کی وزیر اعظم نا مز د ہو نے پر بھی کئی گمان پیدا ہو ئے کیو ں کہ عمر ان خان کی حکومت نے پا کستان کو جن گھمبیر مسائل سے دوچار کر دیا ہے اس کی وجہ سے اگلی حکومت کو سخت ترین آزمائشو ںکا سامنا کر نا پڑے گا بات سمجھ میں آگئی کہ ان آزمائشوں کی مالا شہباز شریف کے گلے کیو ں ڈالی گئی ۔ جیسا کہ آصف زرداری نے ایک نجی ٹی وی سے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میاں شہبا ز شریف سے انھوں نے دوبہ دو الگ تھلگ ملاقات کی اور اس ملا قات کی کانو ں کا ن کسی کو بھنک نہیں پڑنے دی اس ملا قات میں انھو ں نے شہباز شریف کو وزیراعظم نامز د کر نے کی تجو یز کر نے کی تجو یز دی ۔ یہ سن کر شہبا ز شریف ہچکچائے جس پر آصف زرداری نے ان کو یقین دلا یا کہ پی پی کے پاس ستر ووٹ ہیں وہ بآسانی وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے چنانچہ شہبازشریف نے جواباًکہ وہ اپنے قائد یعنی نو از شریف سے مشورہ کر لیں، جب میا ں شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم نا مزدگی کی خبر پھیلی تو اس وقت حیر انگی پھیلی کہ آصف زرداری تو کہا کر تے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ بلا ول بھٹو کو اپنی زندگی میں وزیر اعظم دیکھ لیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجود ہ حکومت کے دن گنتی کے ہیں جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ یہ حکومت انتخابی اصلا حات کر کے انتخابات کی طر ف مڑ جائے گی ، تاہم یہ کہا جا رہا تھا کہ نئی حکومت میںبلا ول بھٹو کو وزارت کا قلمدان سونپ دیاجائے گا مگر اب کی اطلا عات یہ ہیںکہ پی پی نے کوئی حکومتی عہد ہ لینے سے انکارکردیا ہے ، وزیر خارجہ کے عہد ے کو قبول نہ کر نے کی وجہ تویہ بیان کی جارہی ہے کہ پی پی ایک بڑی جماعت ہے اور اس پارٹی کا سربراہ کسی دوسرے پارٹی کے سربراہ کے ماتحت کیو ںکر کا م کر سکتا ہے انتخابات کے میدان میںایک دوسر ے کا آمنا سامنا بھی کر نا ہے ۔ البتہ پی پی تعاون کے طور پر حکومتی عہد و ں کی بجائے آئینی عہد ے سنبھالنے کی طرف راغب ہے کیو ںکہ آئینی عہدے دامن کوشفاف رکھنے میں ممد ثابت ہو تے ہیں ان پر انگلی اٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی جیسا کہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویزاشرف کو اسپیکر کے عہد ے کے لیے پیش کر دیا گیا ، اسی طرح صدر مملکت کے عہد ے کے لیے بھی پی پی تیا ر کھڑی ہے گو کہ کہا جا رہا تھا کہ یہ عہد ہ مولا نا فضل الرّحمان کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ان کی سیا سی قد وقامت اور بزرگی کی بناء پر یہ عہد ہ جلیلہ ان کے شایان شان ہے ۔ چنا نچہ اب بات سمجھ میںآرہی ہے کہ وفاقی کا بینہ کی تشکیل کا باعث کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی شہبازشریف کے لیے ایم کیو ایم کا بھی رویہ بھی سرمنڈاتے ہی اولے پڑ گئے کے مصداق رہا ، شہباز شریف نے جب وزیراعظم منتخب ہو نے کے بعد تقریر کی تو اس کے فوری بعد ایم کیو ایم کے وسیم اختر کی طرف سے سخت گیر عدم اعتما د کا ردعمل آیا انھوںنے غصہ کا اظہار کیا کہ میا ں صاحب نے اپنی تقریر میں ایم کیو ایم سے ہو ئے معاہد ے پر عمل درآمد کا ذکر کیو ں نہیں کیا چنا نچہ منہ کے اس بگاڑ پر میاں صاحب کو ایم کیو ایم کے عارضی ہیڈ کو ارٹر کی یا ترا کر نا پڑ گئی ۔ ویسے عمران خان کے دور میںتوایم کیو کا اپنے اتحاد کے ساتھ رویہ سکون پر مشتمل رہا ورنہ ماضی میں ایم کیو ایم اپنے اتحاد پر خاصا دباؤ ڈالے رکھتی رہی ہے پرویز مشرف سے قبل پی پی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے زمانے میں ایم کیو ایم اپنے اتحادیو ں سے روٹھ روٹھ کر نکا ح توڑلیا کر لیتی تھی پھر راضی ہو کر جو ڑ لیتی ۔گویا آنیاں جا نیا ں رہا کرتی تھیں یہ آنیا ں جا نیا ں پی ٹی آئی کے دور میںنظرتو نہیں آئیں بلکہ محسو س ہی نہیںہوا کہ ایم کیو ایم بھی پی ٹی آئی حکومت کا حصہ ہے ۔ البتہ فروغ نسیم کے شریف الدینی کر دار کی بنا ء پر محسوس کیا جاتا رہا کہ پی ٹی آئی کے وزیرقانون جو سابق وزیر قانون دان شریف الدین پیر زادہ کا پرتو نظرآتاہے اس کا دراصل تعلق ایم کیو ایم سے ہے چنا نچہ ایم کیو ایم نے ماضی میںپی پی اور مسلم لیگ ن کے اتحادی کی حیثیت سے جوجلوہ گیریا ں کی ہیں اس کی جھلک میا ں صاحب کے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی روشن نظر آئی کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب کو پچھلی حکومت کے مسائل کے انبار سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے بھاری پتھر سے بھی نبروآزما ہونا پڑے گا ، کیوں کہ ایم کیو ایم حکومت کے اسی عرصہ میں اپنی شرائط پرعمل چاہتی ہے کیو ں کہ اس کو بھی اگلے انتخابات کے لیے لنگو ٹ کسنا ہے ۔آصف زرداری نے بیک جنبش قلم ایم کیو ایم کی ساری شرائط تسلیم اس لیے کرلیا تھا کہ شامت بھگت تو صاحب اقتدار کے نصیب رہے گی ۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں