اصل گواہ کی گواہی ہی مستند ہو گی

پاک فوج کے ترجمان کی گزشتہ روزکی پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے دوران عسکری قیادت سے مدد مانگنے اور بیچ بچائو کے لئے تین آپشنز دینے کے بیان کی سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما شیریں مزاری کی جانب سے نہ صرف تردید کی گئی ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ یہ تجویز دوسری جانب سے آئی تھی ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے اس وقت کے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے ملاقات کا وقت مانگا اور عدم اعتماد کا سامنا کرنے ‘ استعفیٰ دینے یا نئے انتخابات کی تجویز دی اصل انہوں نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ ایسا کرنے میں عسکری قیادت کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی اور اس کا مقصد کیا تھا۔ بہرحال صورتحال کیا ہے اس حوالے سے ہر دو جانب سے کئے گئے دعوئوں کو کسی کسوٹی پر پرکھ کر درست یا غلط ٹھہرانے کا کوئی طریقہ نہیں البتہ اس مسئلے کا ایک آسان حل یہ موجود ہے کہ سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اس حوالے سے حقائق سے میڈیا اور قوم کو بتائے کہ حقیقت کیا ہے اور آیا اس طرح کی کوئی بات ہوئی تھی یا نہیں۔ مناسب تو یہ تھا کہ جو دعویٰ خاتون سابق وفاقی وزیر کی جانب سے کیا گیا ہے اس کی بجائے سابق وزیر دفاع اس کی وضاحت کرتے تو یہ زیادہ مؤثر اور مستند سمجھا جاتا بہرحال اب بھی اس حوالے سے سابق وزیر دفاع کا بیان اور ان کی گواہی ہی اہم ہوگی سابق وزیردفاع کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی تو یہ آئی ایس پی آ ر کی بیان کی تائیدمتصور ہوگا۔کوشش ہونی چاہئے کہ ایسی بحث نہ چھیڑی جائے جس سے اداروں کے حوالے غلط فہمیاں پیدا ہوں اور پہلے سے جاری کشمکش میں مزید اضافہ ہو ۔
توشہ خانہ الزام ‘اس حمام میں سب ننگے ہیں
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے غلط استعمال کے الزامات نے اس وقت غیر معمولی رخ اختیار کر لیا جب وزیراعظم شہباز شریف نے دعوی کیا کہ ان کے پیشرو نے سعودی عرب کی دی گئی گھڑی سمیت بیرونی ریاستوں سے ملنے والے مہنگے تحائف دبئی میں فروخت کیے تھے۔ وزیر اعظم کے اس دعوے کی تائید سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کی، جنہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اپنے اثاثے بیچنا (توشہ خانہ سے خریدنے کے بعد)جرم نہیں ہے۔توشہ خانہ سے قیمتی اشیاء سستے داموں حاصل کرنے والا سابق وزیر اعظم عمران خان پہلا شخص نہیں بلکہ قبل ازیں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری چلا آرہا ہے توشہ خانہ سے قیمتی کاروں کی خلاف ضابطہ خریداری پر نیب کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف ‘ یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری پر کیس بنایا گیاجس میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر اثرورسوخ استعمال کرکے غیر ملکی تحائف کم قیمت پر حاصل کرنے کا الزام عائد کی ایسے میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر الزام گزشتہ الزامات کا ایک تسلسل ہی قرار پاتا ہے البتہ سابق وزیر عمران خان کی جانب سے ان قیمتی تحائف کو فروخت کرنے اور ایک قیمتی تحفے کی فروخت پر تحفہ دینے والی شخصیت کی جانب سے مبینہ ناراضگی کا اظہاربہرحال مختلف امر ہے ۔توشہ خانہ کے اشیاء کی نیلامی میںشرکت صرف سول و فوجی حکام ہی قانونی طور پر کر سکتے ہیں جس کے باعث ان اشیاء کی واجبی قیمتوںپر نیلامی ہوتی ہے جسے ملی بھگت قرار دینا غلط نہ ہوگا۔ اگر قانون میں تبدیلی لا کر توشہ خانہ کی اشیاء میں ہر خاص و عام کو بولی لگانے کی اجازت کا قانون بنایا جائے تو ان اشیاء کے کہیں بڑھ کردام لگ سکتے ہیں جس سے ان اشیاء کی قدر و قیمت بھی بڑھے گی اور سرکاری خزانے میں بھی معقول رقم آئے گی۔
مادر وطن کی پرنور ساعتوں میںرخصتی
مادر پاکستان کہلانی والی اور عالمی شہرت یافتہ پاکستانی خدمت گزار شخص عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس بانو ایدھی کی وفات پاکستانی عوام کے لئے تو رنج کا باعث سانحہ ضرور ہے اس سے بڑھ کر یہ ان ہزاروں بچوں کے لئے سخت رنج و الم کا باعث امر ہے جو اس عظیم ماں کی نگہداشت و پرورش میں بڑے ہوئے یا پھر ابھی ان کی نگہداشت جاری ہے بلقیس بانو ایدھی عبد الستار ایدھی کی بیوہ، ایک نرس اور پاکستان میں گزشتہ 6 دہائیوں سے فعال ترین مخیر حضرات میں سے ایک تھیں اور بلقیس ایدھی فانڈیشن کی سربراہ تھیں۔ان کے فلاحوں کاموں میں ایدھی ہومز اور ملک بھر میں ایدھی مراکز میں جھولا بھی شامل ہے، جس کے ذریعے ہزاروں لاوارت بچوں کی جانیں بچالی گئیں۔ انہوں نے بلقیس ایدھی فانڈیشن کی سربراہ کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ خدمات عامہ کے لیے 1986رومن میگسیسی اعزارحاصل کیا۔حکومت پاکستان نے انہیں ان کی خدمات پر ہلال امتیاز سے نوازا جبکہ بھارتی لڑکی گیتا کی دیکھ بھال کرنے پر بھارت نے انہیں2015میں مدر ٹریسا ایوارڈ سے نوازا تھا۔گزشتہ برس ایک بین الاقوامی ادارے نے انہیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندے پروفریسر یانگھی لی اور امریکی سائنس دان اسٹیفن سولڈز کے ہمراہ دہائی کی شخصیت قرار دیا تھا۔بلقیس ایدھی کی خدمات کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے اس کا حق ادا نہیں ہو گاان کی پرخلوص خدمات ہمارے لئے نمونہ اور مشعل راہ ہیں انکی خدمات پر پاکستانی قوم ان کی احسان مند رہے گی۔ قدرت نے مادر پاکستان کو رمضان المبارک کی ان پرنور ساعتوں میں اپنے پاس بلا لیا ہے ان کی خدمات کا صلہ پرودگار عالم ہی سے سکتا ہے ہم بطور قوم ان کے لئے صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں