افغانستان سے دہشت گرد حملوں کے بڑھتے واقعات

خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں پاک-افغان سرحد کے قریب فوجی قافلے پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں7اہلکار شہید ہوگئے جبکہ جوابی فائرنگ میں 4 دہشت گرد مارے گئے۔سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پربرابر حملے اور خاص طور پر سرحد پار سے پاکستانی علاقے پر حملہ ناقابل برداشت امر ہے جس کی روک تھام میں طالبان حکومت کی ناکامی کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز کواز خود یہ جواز مل جاتا ہے کہ وہ سرحد پار سے حملہ آور ہونے والوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں۔یہ کوئی بہتر صورت نہیں لیکن بامر مجبوری ایسا کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے اب بھی وقت ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں یا پھرپاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے دفاع کے حق کے استعمال پر جزبز نہ ہوں۔اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ بھی ایفا نہیں کیا جارہا ہے اس طرح کی صورتحال میں ہمسایہ ممالک کے درمیان غلط فہمی پیدا ہونا فطری امر ہو گا جس سے بچنے کا واحد ذریعہ افغان عبوری حکومت کو حق ہمسائیگی پر توجہ اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قیمت پراستعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کو یقینی بنانا ہے ۔افغان عبوری حکومت اگر اپنے علاقے میں ٹی ٹی پی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اس کا کھل کر اظہار کیا جائے اور مداخلت کاروں کی سرکوبی کے لئے پاکستان کی مدد حاصل کی جائے ۔مشکلات میں گھری عبوری حکومت کے پالیسی سازوں کو جملہ امور پر غور کرنا چاہئے اور عدم تعاون کی صورت میں پاکستان کی جانب سے ممکنہ طور پر سرحدوں کی بندش کے حق کے استعمال کے مندرجات پر غور کرنا چاہئے ۔وزارت خارجہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر افغان ناظم الامور سے باقاعدہ طور پر احتجاج پرافغانستان کی عبوری حکومت کس سنجیدگی کے ساتھ افغانستان کی سرززمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ذمہ داری نبھاتی ہے اس حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن بالعموم دیکھا جائے تو ایک تسلسل کے ساتھ افغانستان سے پاکستان میں مداخلت کا سلسلہ جاری ہے اور بار بار احتجاج اور توجہ کے باوجود افغان حکومت اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی صرف یہی نہیں بلکہ کچھ عرصہ قبل طالبان کے بعض رہنمائوں کی جانب سے سرحدی علاقوں میں مداخلت اورپاکستان کے خلاف باقاعدہ بیانات دینے کی بھی مثالیں موجود ہیں جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستان کے حوالے سے وہاں جو منفی سوچ والے عناصر ہیں ان کی نمائندگی افغان طالبان کی حکومت میں بھی ہے اس طرح کے عناصر کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کا ہر وقت امکان رہے گا۔ ماضی میں تو این ڈی ایس ‘ را کی معاونت سے پاکستان میں منظم دہشت گردی کے واقعات کے انتظامات میں ملوث رہی ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ ایک جانب جب افغان عوام پر سخت وقت آیا تو پاکستانیوں نے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے اور ان کی ہر سطح پر مدد کی گئی اب بھی چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں لیکن بجائے اس کے کہ پاکستان کا احسان مند ہوا جائے تخریب کاری اور دہشت گردی کاکوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں دیا جاتااب یہ سلسلہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے آئے روز پاکستانی فورسز پر حملے اور شہادتوں کے واقعات کا اب جواب نہ دیناپاک فوج کے لئے ممکن نہیں رہا اس لئے کہ پاک فوج کی جانب سے اگر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ مصلحت ہے بھی تو بھی عوام یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاک فوج دشمنوں کو مسکت جواب دینے کی بجائے صبر و برداشت کا مظاہرہ کرے ۔افغان کی سرزمین سے بار بار پاکستانی علاقوں میں مداخلت اور حملوں کے واقعات کے بعد پاکستان کی فوج کو اصولی اور قانونی طور پر دفاع کا حق حاصل ہو جاتا ہے جس کے پیش نظر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردی کے کیمپوں کو نشانہ بنایا جائے ایسا کرنا اس لئے بھی اب مجبوری بن چکا ہے کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ذمہ داری میں ناکام ہو چکا ہے اور افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے ساتھ یا توکوئی ممکنہ گٹھ جوڑ کی صورتحال ہے حکومتی سطح پرتو اس کا امکان نہیں لیکن اس سے کم سطح پر انتہا پسند عناصر کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ نرم رویہ اور ان کے خلاف کارروائی میں نرمی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا یہ صورتحال جہاں پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے وہاں یہ خود افغان حکومت کے لئے بھی مسائل کھڑی کرنے کا باعث بننا بعید نہیں ۔ افغان حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ ان معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ایک ذمہ دار پڑوسی کی حیثیت سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات متاثر نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت