کشمیرکا جبراًانضمام پاکستان کی سفارتی ناکامی

بھارت کو 1949ء سے لیکر2019 ء تک اپنے غیرقانونی زیرقبضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کی جرات نہیں ہوئی، پوری سات دہائیوں تک بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اے کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رہی جس کی توثیق مقبوضہ کشمیر کی اس آئینی اسمبلی نے کی تھی جسے 1957میں تحلیل کر دیا گیا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کو سال 2019ء میں کس بات سے یہ شہ ملی کہ اس نے اچانک جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی اور اسے غیرقانونی اور یکطرفہ طور پر اپنے ساتھ ضم کرلیا، اس غیرقانونی انضمام کا سب سے برا پہلو یہ تھاکہ اس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کی طرف سے27 ستمبر2019ء کی تقریر اور پاکستان کے اندر مظاہروںکے سوا کوئی ٹھوس ردعمل نہیں سامنے آیا، تحریک انصاف کی حکومت نے بھارت کے اس غیرقانونی اقدام پر کوئی سفارتی کوشش نہیں کی حالانکہ عمران خان خود کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوںکا سفیرکہلواتے رہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ چین کے زیرقیادت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بندکمرہ اجلاس میں بھی بھارت کے غیرقانونی اقدام کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی سلامتی کونسل کی طرف سے ایساکوئی بیان جاری کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی پر زور دیا گیا ہو۔
پاکستان کے عوام اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری حق بجانب ہیں کہ عمران خان سے یہ تین سوال پوچھیں کہ ان کی حکومت نے کشمیرپر خاموشی کی پالیسی کیوں اختیار کئے رکھی، عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران صدر جوبائیڈن سے ان کی ملاقات کے دوران کشمیر کے مستقبل کے بارے کیا طے ہوا تھا اور اگر عمران خان ،ٹرمپ اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کوئی سمجھوتہ ہواتھا تو پھر پاکستان اور کشمیر کے عوام کوکیوں اندھیرے میں رکھا گیا؟، یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگست2017میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی میں پاکستان پر الزام تراشی کی تھی اور افغانستان میں بھارت کے لیے اہم کردار پر زور دیا تھا۔
دسمبر2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھ کر افغان بحران کے حل کے لئے مدد مانگی،ان کے خط کے نتیجے میں پاکستان نے امریکہ کو ہرممکن تعاون فراہم کیا اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میزپر لایا جس کے نتیجے میں فروری2020ء میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پایا بعد میں اگست 2021میں طالبان نے اقتدار حاصل کرلیا،جولائی 2019ء میں صدرٹرمپ نے حیران کن طور پر وزیراعظم عمران خان کو واشنگٹن مدعو کیا تھا جہاں دیگر معاملات کے علاوہ کشمیرکے تنازعے پر بنیادی توجہ مرکوزکی گئی،صدرٹرمپ نے کشمیرپر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ،صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھاکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ سات دہائیوں پرانے کشمیر کے تنازعے پر ثالثی کا کردار اداکریں ،ان کا کہناتھا کہ اگر میں مدد کرسکتاہوں تو ثالث بننا میرے لئے خوشی کی بات ہوگی،یہ ٹرمپ کا کشمیرکے بارے میں واضح بیان تھا جس پر عمران خان پراسرار طور پرخاموش رہے ،عمران خان کے اس دورے کے کچھ دن بعد بھارت نے غیرقانونی اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیرکو دوحصوںمیں تقسیم کرتے ہوئے مرکزی یونین میں شامل کرلیا،بھارتی اقدام واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اس انضمام کی جڑیں 22جولائی 2019ء کی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات سے تلاش کی جائیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے واقعات پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے بھارت کے غیرقانونی اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس اقداما ت نہیں کئے بلکہ انہوں نے آزادکشمیر کے لوگوں کو بھی سرحد پاراپنے بھائیوں کی مددکے لئے جانے سے روک دیا تھا،دراصل پی ٹی آئی حکومت کی سرپرستی میں احتجاج اوربیانات بھارت کے غیرقانونی اقدام کے لئے محض ڈھال تھے اوراس گمراہ کن مہم کا مقصدپاکستان اور کشمیرکے عوام کو دھوکہ دینا تھا، کشمیرنہ صرف کشمیریوں کی بقاء کا معاملہ ہے بلکہ یہ پاکستان کی قومی سلامتی اور قومی مفاد کا معاملہ بھی ہے ،جب کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے،اس لئے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کشمیریوں کے مستقبل اور کشمیریوں کے حق خودارادیت پر سمجھوتہ کرے،پاکستان اور جموں وکشمیرکے عوام کویہ حق حاصل ہے کہ وہ عمران خان سے پوچھیں کہ امریکی صدرسے ملاقات کے دوران مقبوضہ کشمیرکی مستبقل کی حیثیت کے حوالے سے بھارت کو کیا رعایتیں دی گئی تھیں ،درحقیقت، یہ ملاقات کشمیر پر ایک اور قبضے اور مقبوضہ کشمیرکے بھارت کے ساتھ زبردستی الحاق کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ :راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت