مراسلے کے بعد ہدایت نامہ

ایک مراسلے کے نتیجے میںقومی سیاسی منظر بدلنے کے بعدواشنگٹن سے ایک بار پھر پاکستان کے لئے ڈومورکا پورا ہدایت نامہ آگیا ہے ۔اس بار ڈومور کا یہ نغمہ کورس کی شکل میں گایا گیا ہے ۔امریکہ اور بھارت کے وزرائے خارجہ ایس جے شنکر اور انٹونی بلنکن اور وزرائے دفاع راجناتھ سنگھ اور لوئیڈ آسٹن کے درمیان 2+2ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ۔جو کچھ اعلامیے میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا دونوں وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بیان کیا گیا ۔یوں تو بھارتی وزراء کا یہ دورہ یوکرین جنگ کے تناظر میں تھا مگر مشترکہ اعلامیہ حقیقت میں پاکستان پر امریکہ اور بھارت کی مشترکہ چارچ شیٹ ہی دکھائی دے رہا ہے۔بھارت امریکہ کے ساتھ گہری تزویراتی شراکت داری کے باوجود یوکرین جنگ کے معاملے میں گومگوں کا شکار ہے ۔ایک طرف امریکہ سے وابستہ لاتعداد مفادات ہیں تو دوسری طرف دوایشیائی ہمسایوں روس اور چین سے کٹ جانے کا خوف لاحق ہے۔اس کیفیت میں وہ روس کے ساتھ تیل کی تجارت بھی جاری رکھے ہوئے ۔امریکہ اور یورپ کی خواہش ہے کہ بھارت روس سے تیل کی خریداری بند کرے تاکہ روس پر عائد مغربی پابندیاں زیادہ موثر ہوسکیں ۔اس معاملے پر بھارت نے امریکہ کو دوٹوک انداز میں نومور کہہ دیا ہے ۔مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ نے جب بھارت سے ملفوف انداز میں فرمائش کی تو ایس جے شنکر نے کھل کر کہا کہ” اگر آپ کا اشارہ روس سے توانائی خریدنے سے متعلق ہے تو آپ کو بھارت کی بجائے اپنا فوکس یورپ پر رکھنا چاہئے جو ہم سے کہیں زیادہ توانائی روس سے خرید رہا ہے” ۔یہ ہے اپنے حقیقی قومی مفاد میں بھارت کی وہ خارجہ پالیسی جس کی تعریف عمران خان نے بھی اپنے کئی جلسوں میں کی تھی ۔بھارت امریکہ کی آنکھ کا تارا ہونے کے باوجود اس ڈومور کی مزاحمت کر رہا ہے کیونکہ اسے خوف ہے یوں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑا ہونے سے اسے شدید معاشی نقصان اور علاقائی تنہائی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔امریکہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ یوں اشاروں اور کنایوں میں ڈومور او ر پاکستان کو تازیانے کے انداز میں ”ڈومور” کا یہی وہ رویوںکا فرق ہے جس نے آج پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کی ایک لہر سے اُٹھادی ہے ۔دونوں ملکوں کی مشترکہ اعلامئے میں دہشت گردی کا ذکر سرسری انداز میں ہوتا تو کچھ عجب نہ تھا مگر اس میں پوری تفصیل کے ساتھ ایسے تمام واقعات اور کرداروں کا دوبارہ اعادہ کیا گیا ہے جن میں بھارت اورامریکہ پاکستان کے کردار پر نہ صرف انگلی اُٹھاتے رہے ہیں بلکہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں ڈلوانے سمیت کئی پابندیوں کا شکار کراتے رہے ہیں۔اعلامئے میں پاکستان سے فرمائش کی گئی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ناقابل تنسیخ اقدامات اُٹھائے ۔اس بات کو یقینی بنائے اس کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہو۔القاعدہ ،جیش محمد ،داعش ،لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین جنہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کی قراداد1267کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا ہے کے خلاف موثر اقدامات اُٹھائے۔2008کے ممبئی اور2016کے پٹھانکوٹ حملوں کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔عالمی دہشت گردی سے متعلق اقوام متحدہ کے جامع کنونشن پر عمل درآمد کرے جس میں کہا گیا کہ تنازعہ کی کوئی بنیاد مسلح مزاحمت کا جواز نہیں قرار نہیں پا سکتی ۔یہ نکتہ واضح طور پر کشمیر کے حوالے سے ہے ۔یعنی کشمیر میں بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اپنے موقف سے انحراف کیا اور اب وہ انسانی حقو ق کی جس قدر بھی خلاف ورزیاں کررہا ہے حتیٰ کہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بھی تبدیل کررہا ہے تب بھی کشمیریوں کو اس کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق حاصل نہیں ۔دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق فیٹف کے اصولوں کی روشنی میں بین الاقوامی میعار کے مطابق اقدامات اُٹھائے جائیں۔مشترکہ اعلامیہ میں حکم دینے کا یہ انداز اس مراسلے سے چنداں مختلف نہیں جو حال ہی پاکستان کی سیاست میںا تھل پتھل کا باعث بن کر رہ گیا ہے ۔”Pakistan should take immediate, sustained irreversabe actions to ensure that no territory of under its control is used for terrorist attacks.”
امریکہ اور بھارت سے ڈومور کواس تفصیل سے بیان کرنا اس سوچ کی یکسر نفی اور اسے غلط ثابت کرتا ہے جس کے مطابق امریکہ پاکستان کا گہر دوست اور سٹریٹجک اتحادی ہے۔ اس سوچ کا اظہار چند ہی دن قبل ہوا تھا ۔پاکستان کے خلاف ی مشترکہ چارج شیٹ بتارہی ہے کہ امریکہ اس خطے میں صرف بھارت کا دوست اور سٹریٹجک اتحادی ہے ۔دوسروں کے ساتھ اس کا تعلق آجیر اور اجیر کا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بلاتاخیر شروع کرنے کی ضرورت