ورثے میں ملی بدتمیزی

1997ء کے انتخابات سے قبل ایسے سیاسی حالات پیدا ہو گئے تھے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان شدید اختلاف کی وجہ سے آپس کے رشتے ٹوٹ گئے، سیاسی کارکن اپنے قائد کے خلاف ایک لفظ سننا گوارہ نہیں کرتے تھے، دونوں پارٹیوں میں دشمنیاں پیدا ہو گئیں جو کئی سال تک چلتی رہیں، جب 1999ء میں پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو ان تلخیوں میں کسی قدر کمی آ گئی۔ سیاسی قائدین کی طویل جد و جہد کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون سے میثاق جمہوریت کر لیا جس میں ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے پر اتفاق ہوا۔
میثاق جمہوریت کا نتیجہ تھا کہ 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلزپارٹی کا دور حکومت خوش اسلوبی سے گزر گیا مگر جونہی 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف نے الزام عائد کیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی ہے، تحریک انصاف نے دھاندلی والے معاملے کو لے کر اس قدر احتجاجی جلسے کئے کہ ایسا لگا جیسے نوے کی دھائی کا دور لوٹ آیا ہے، عمران خان کے جذباتی کارکنان مخالفین کیلئے سخت زبان استعمال کرنے لگے کیونکہ ان کے قائد خود نواز شریف اور دیگر پارٹیون کے قائدین کیلئے نازیبا زبان استعمال کر رہے تھے۔ آج اس سماجی بحران میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، عمر و مرتبے کا لحاظ کئے بغیر محض مخالف جماعت ہونے کی بنا پر گالیاں دی جا رہی ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، جب یہی کارکن آگے چل کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو ورثے میں ملی بدتمیزی عیاں ہونا شروع ہوتی ہے۔ عوامی عہدے کے حامل کسی بھی شخص کو بد اخلاقی زیب نہیں دیتی ہے۔ اہل سیاست نے اس طرف توجہ نہ دی تو وہ خود بھی بدتمیزی کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔
یہ درست ہے کہ نظریاتی کارکنان کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں، تاہم یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو قبول کیوں نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے دوستوں میں کئی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں ، ان سے سیاسی اختلاف رائے بھی ہوتا ہے مگر مکمل احترام کے ساتھ۔ اختلاف رائے کیلئے دوسروں سے لڑنا اور عدم برداشت جیسے طرزعمل کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ آپ اپنی دانست کے مطابق جس نظریئے پر قائم ہیں دوسرے کی سوچ اس سے مختلف ہو سکتی ہے، آپ کی طرح ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس سیاسی جماعت کو درست سمجھتا ہے اس کی حمایت کرے۔
اس وقت اخلاقی اعتبار سے کسی سیاسی جماعت کو دوسری جماعت پر برتری نہیں ہے، سیاسی جماعتیں کم و بیش ایک جیسے کارکن تیار کر رہی ہیں، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے کارکنوں کی تربیت ان خطوط پر کر سکتی ہیں کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے دوسروں کو قبول کرنے کی ہمت پیدا کریں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب کارکنوں کو قیادت کی طرف سے گائیڈ لائن دی جائے گی۔ سیاسی قیادت کا تلخ رویہ کارکنان میں سرایت کر جاتا ہے جس کے سامنے بند باندھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ یادش بخیر دسمبر 2007ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے، جلاؤ گھیراؤ میں سرکاری و نجی سرکاری املاک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ خدشہ تھا کہ یہ سلسلہ جلد نہیں رکے گا مگر اس نازک موقع پر آصف علی زردای نے ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر ملک کو مزید نقصان سے بچا لیا۔ پیپلزپارٹی قیادت اگر بروقت مداخلت نہ کرتی تو نہ جانے کس قدر نقصان ہو چکا ہوتا۔ سو معلوم ہوا کہ قیادت کے ایک اشارے پر کارکن سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ عام حالات میں کسی شہری کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے آس پاس کے کسی شخص کو گالی دے یا اس کی کردار کشی کرے کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر سیاسی چھتری تلے وہ تمام حدیں عبور کر جاتا ہے اور اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ہے، یہ خطرناک رجحان ہے جس کا قلع قمع ضروری ہو گیا ہے۔ دیکھا جائے تو عدم برداشت کے جتنے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں وہ ہجوم کے ہاتھوں آئے ہیں کیونکہ ہجوم میں بچ نکلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ہجوم کو ابھارنے والا کوئی ایک ہوتا ہے جبکہ نقصان لامتناہی ہوتا ہے اسی طرح سیاسی میدان میں اکسانے والا ایک لیڈر ہوتا ہے جبکہ نقصان ملک و قوم کا ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قانون کے شکنجے میں نہ آنے کی وجہ سے بدکلامی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کے مؤقف کو کسی حد تک درست قرار دیا جا سکتا ہے مگر بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس سماج کی اخلاقی تربیت کا کوئی نظام نہ ہو وہاں بدتہذبی پنجے گاڑ لیتی ہے۔ ریاست پر مجموعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر ہر شخص اور خاندان پر سب سے پہلے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کن خطوط پر کی ہے۔ مغربی سماج سے ہمیں جو بات سیکھنے کی ضرورت ہے وہ برداشت ہے انہوں نے آزادی اظہار کے تناظر میں برداشت کو رواج دیا ہے، وہاں دوسرے کو سننے کا حوصلہ اور دوسروں کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کو قبول کرنا ہی سیکھ لیں تو اس سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں، اہل سیاست کو اپنے طرزعمل پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کس طرح کے سماج کی آبیاری کر رہے ہیں، کانٹے کاشت کر کے پھول سمیٹنے کی توقع کبھی پوری نہیں ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں:  حکومتی عملداری کا سوال؟